’جب پاکستانی بیٹنگ پہ احتیاط طاری ہوئی‘

امام الحق اپنی احتیاط میں مگن تھے کہ اچانک گیند اچھل کر ان کی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ حالانکہ اگر بلا قدرے مضبوط گرفت میں ہوتا اور امام پوری قوت لگاتے تو باؤنڈری کی سیر اس گیند کا مقدر بن جاتی لیکن چونکہ اس اننگز پہ احتیاط طاری تھی، ان کے پاؤں کریز میں ہی جمے رہ گئے۔پاکستان نے اپنی اننگز کا آغاز احتیاط سے کیا۔ احتیاط کی مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ دھیان کی گنجائش ہی نہیں بچی۔ بولٹ اور ساؤدی کے خلاف کریز سے نکلنے کو اسراف پہ محمول کیا گیا اور جب احتیاط ایسی شدید ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیر نہیں لگتی۔اظہر علی ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ کامیابی سے قطع نظر، پچھلے دورۂ نیوزی لینڈ پہ وہ بھرپور اعصاب کے ساتھ کریز پہ ڈٹے رہے۔ وہ اعصاب آج بھی موجود تھے، مگر احتیاط کی اضافی تہہ نے انہی اعصاب پہ سراسیمگی طاری کر رکھی تھی۔ سنبھل کر کھیلتے کھیلتے، وہ یہ بھول گئے کہ سنبھلنا پچھلے قدم پہ ہے یا اگلے پہ۔بابر اعظم پچھلے ایک سال کا شاندار ریکارڈ لیے کریز تک آئے اور نئے سال کی مسلسل دوسری ناکامی کا بار اٹھائے واپس گئے۔ اظہر علی ہی کی طرح، وہ بھی یہ تخمینہ نہیں لگا پائے کہ کس ٹانگ پہ کتنا وزن ڈالنا ہے۔ وہ گیند جسے انھیں آف سٹمپ سے ٹانگ نکال کر کھیلنا چاہیے تھا، وہاں ان کے پاؤں کریز میں جمے رہ گئے۔
محمد حفیظ نے احتیاط کا دامن چھوڑ ہی ڈالا تو چیزیں ان کے موافق جانے لگیں لیکن شعیب ملک ایک بار پھر ذرا جلدی کر گئے۔حسن علی اور شاداب خان نے جس طنطنے کے ساتھ کریز پہ اپنی دھاک بٹھائی، وہ پاکستان کو میچ میں کسی حد تک واپس تو لے آئی، لیکن جہاں سامنے کی بیٹنگ لائن گپٹل، ٹیلر اور ولیمسن جیسوں پہ مشتمل ہو، کنڈیشنز بھی انھی کی ہوں اور بارش کا امکان بھی ہو تو وہاں محرومئ قسمت کی شکایت کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔