کینیڈا کے شہری ایک سال میں اربوں ڈالر کی بھنگ پی گئے

ایجنسیان
ٹورنٹو //کینیڈا میں شہریوں نے 2015 میں بھنگ، گانجے اور چرس جیسی منشیات پر ساڑھے پانچ ارب امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔
ایک اندازے کے مطابق اتنی ہی رقم انھوں نے وائن پر بھی خرچ کی ہیں۔یہ اعداد و شمار کینیڈا کے اعداد و شمار کے بیورو سے حاصل ہوئے ہیں جس نے سنہ 1960 سے 2015 کے دوران میریوانا یعنی بھنگ، چرس اور گانجے کی کھپت پر تحقیق کی ہے۔حکومت نے معیشت اور سماج پر ان منشیات کے اثرات پر تحقیق کا وعدہ کیا ہے کیونکہ آئندہ سال موسم گرما سے وہ اسے جائز قرار دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔پورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے استعمال میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب بالغوں میں اس کی مقبولیت بتائی گئی ہے۔کینیڈا کے اعداد و شمارے کے بیورو کے مطابق سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنیادی طور پر نوجوانوں میں یہ مقبول تھی۔لیکن سنہ 2015 کے اعداد شمار بتاتے ہیں کہ 15 سے 17 سال کی عمر کے صرف چھ فیصد نوجوانوں نے تفریح کے لیے چرس، بھنگ اور گانجے کا استعمال کیا جبکہ ان کے مقابلے میں 25 سال سے زیادہ عمر والے لوگوں کی تعداد دو تہائی رہی۔رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے باشندے سالانہ 697.5 ٹن منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کے اندازے کے مطابق ان کی قیمت پانچ سے سوا چھ ارب کینیڈین ڈالر کے درمیان ہے۔
نونکہ ان منشیات کو ابھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے اس لیے حکام نے اس کا تخمینہ بازار کی قیمت پر لگایا ہے اور یہ سوا سات ڈالر سے لے کر پونے نو ڈالر فی گرام فروخت ہوتی ہے۔کینیڈا کے کئی صوبوں میں اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ اسے قانونی حیثیت حاصل ہونے کے بعد اس کی قیمت دس ڈالر فی گرام رکھی جائے گی۔حکومت ان نشہ آور اشیا کو ملک بھر میں قانونی جواز دینے کا منصوبہ رکھتی ہے اور وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اس کے حامی ہیں لیکن اس کی قیمت کا تعین صوبوں کے ذمے ہے۔نومبر میں وفاقی حکومت کا فی گرام منشیات کی قیمت پر دس فیصد محصول لگانے کا منصوبہ تھا اور باقی 75 فیصد محصول صوبوں کے حصے میں جائیں گے۔اس سکیم کے تحت حکومت کو سالانہ سات ارب کینیڈین ڈالر کی آمدن کی امید ہے۔