ڈینگو و خنزیری بخار کے بھیانک سائے جموں میںمریضوں کی تعداد سینکڑوں میں ، حکومتی سطح پر روک تھام کی بجائے محض دعوے گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال میں بھی تشخیص و علاج کا فقدان

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//حکومت کی طرف سے موذی امراض بالخصوص ڈینگو اور خنزیری بخار کی تشخیص ، علاج اور روک تھام کے دعوے تو گزشتہ کئی سال سے ہو رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر صورتحال کافی خراب ہے ۔ آج کل صوبہ جموں میں ڈینگو بخار اور خنزیری بخار کے تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس وقت ان کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جا رہی ہے لیکن اس وباءکے لئے جنگی بنیادوں پر اقدام کرنے کی بجائے ریاستی حکومت اور محکمہ صحت کے حکام خواب خرگوش میں ہیں۔ جموں کے سب سے بڑے شفاخانہ گورنمنٹ میڈیکل کالج میں بھی مریضوں کے لئے علیحدہ وارڈوں کا کوئی انتظام نہیں۔Platelet Countتیار کرنے والی مشینیں اسپتالوں میں دستیاب نہیں اورجہاں دستیاب ہیں تو ان کو استعمال میں نہیں لایاجارہا ہے۔ ٹسٹ کی رپورٹیں آنے میں کم سے کم چار سے پانچ دن لگ رہے ہیں۔صوبہ جموں کے کلیدی طبی ادارہ گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال جموں، سپر اسپشلٹی اسپتال جموں وغیرہ میں ڈینگو بخار اور خنزیری بخاری سے متاثرہ مریضوں کی تشخیص کے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ عام لوگوں کا سرکاری اسپتالوں پر سے بالکل بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ لوگ سیدھے متاثرہ لوگوں کو لدھیانہ، امرتسر، دہلی ، چندی گڑھ لیجانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں میں صرف غریب اور مالی طور انتہائی کمزور مریض ہی دکھائی دے رہے ہیں جن کے لئے کوئی خاص وارڈ نہیں۔ انہیںایمرجنسی وارڈ میں رکھاجارہاہے جہاں پر صفائی ستھرائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جموں کے سرکاری اسپتالوں میں کئے گئے کل1390ڈینگو بخاری کے ٹسٹوں میں میں سے 270مثبت پائے جبکہ 364کی رپورٹ آناابھی باقی ہے۔ 270مثبت پائے گئے ڈینگو معاملات میں91بچے(55لڑکے اور36بچیاں) اور179افراد میں115مرداور64خواتین شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق مثبت پائے گئے ڈینگو بخار کے مریضوں میں سے 240 کا تعلق جموں،6 کا تعلق کٹھوعہ سے ہے۔ سانبہ سے6، پونچھ اور کشتواڑ سے ایک ایک شامل ہے۔ راجوری ضلع سے تعلق رکھنے والے 5 کیس مثبت پائے گئے ہیں۔ اودھم پور میں5، ڈوڈہ میں5 جبکہ ایک کا تعلق کشمیر سے بتایاجاتاہے ۔حکام کے مطابق خنزیری بخاری کے کل 73ٹسٹ کئے گئے جن میں سے 10مثبت اور 63 منفی پائے گئے جب کہ خنزیری بخاری سے 3 اموات بھی ہوئی ہیں ۔ خنزیری بخار کے مریضوں میں3 بچے بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق خنزیری بخار’سوائن فلو‘کے 4کیس جموں میں سامنے آئے جن میں سے ایک کی موت ہوگئی ۔ رام بن اور راجوری ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔ کٹھوعہ میں1،راجوری میں2اور اودھم پور میں سوائن فلو کے 2کیس مثبت پائے گئے ۔ڈینگو اور خنزیری بخاری سے بچاو¿ کے لئے کئے جارہے انتظامات بارے کیڑے مکوڑوں کی سے پھیلنے والی بیماری کے لئے نیشنل ویکٹر بورن ڈزیز کنٹرول پروگرام(NVBDCP)کی ایس پی او اور ریاستی ملیریالوجسٹ ڈاکٹر مادھوری سلاتھیا نے بتایاکہ مچھروںکو مارنے کے لئے جراثیم کش ادوات کا چھڑکاو¿ اور فوگنگ کی جارہی ہے۔ 349تالابوں میں بیالوجیکل اقدام کے طور پر Gambusiaمچھلی ڈالی گئی ہے جوکہ مچھروں کو کھاجاجاتی ہے۔ تالابوں میں مچھروں کے لاروا کھانے والی مچھلی کی موجودگی کو یقینی بنایاجارہاہے۔ان کے مطابق مچھروں کی افزائش والے حساس مقامات کی نشاندہی کر کے وہاں پر ضروری اقدام کئے گئے ہیں۔ جموں شہری علاقوں میں جموں میونسپل کارپوریشن کے اشتراک سے مل کر 73روزہ فوگنگ آپریشن شروع کیاگیاہے۔27اکتوبر تک23روزہ روسٹر بھی بنایاگیاہے۔ موصوفہ نے مزید بتایاکہ ایف ایم 92.70کے ذریعہ لوگوں کو آگاہ کیاجارہاہے۔ ملیریا/ڈینگو /چکن گنیا سے متعلق اپریل2017سے اب تک ہفتہ وار22مرتبہ اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے گئے۔ انہوں نے بتایاکہ sentinel surveillance اسپتالوں میں جس میں گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں، گورنمنٹ اسپتال گاندھی نگر، سروال اسپتال، ضلع اسپتال سانبہ، کٹھوعہ، اودھم پور، سانبہ، ڈوڈہ، راجوری اور پونچھ میں اور برزلہ سری نگر میں لیبارٹری رکھی گئی ہے جہاں پر ڈینگو کے ٹسٹ کئے جارہے ہیں۔ 16مئی2017سے ریاست بھر میں قومی ڈینگو دن منایاجارہاہے۔جولائی ماہ کو انسداد ِ ڈینگو کے طور پر ریاست بھر میں منایاگیا۔

 

بکس
ڈینگو مچھر
ڈینگو بخار مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے۔ ملیریا کے ماہر ڈاکٹروں کے مطابق اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ڈینگو کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ، شدید بارشیں، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ شروع میں یہ مرض صاف پانی میں پیدا ہونے والے مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔مگر بعد میں گندے پانی میں پیدا ہونے والا مچھر ڈینگو وائرس کے مریض کا خون چوس کر صحت مند افراد کے خون میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،جس سے ڈینگو بخار کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ڈینگو بخار کی عام علامات تیز بخار، جسم میں شدید درد اور منہ اور بازو¿وں پر سرخ دھبے پڑنا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ڈینگو وائرس انسانی خون میں داخل ہو کر سب سے پہلے تلی کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ تلی انسانی جسم کا وہ عضو ہے جو جسم کا خون صاف کرتی ہے۔ تلی کا اہم ترین کام اینٹی باڈیز بنا کر جسم کے اندر جراثیم کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانا اور جسم میں پلیٹ لیٹس کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ جب ڈینگو وائرس جسم میں داخل ہو تا ہے تو پلیٹ لیٹس اور خون کے سفید خہلیے تیزی سے تباہ ہونے لگتے ہیں اور جب ہزاروں کی تعداد میں تباہ شدہ خون کے سفید خولیے اور پلیٹ لیٹس تلی میں پہنچتے ہیں تو تلی پر ورم ہو جاتا ہے یہ صورتحال نہ صرف انسانی صحت کے لیے بلکہ زندگی کے لیے بھی خطرناک ہوتی ہے۔