سرینگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پھر قدغن

یو این آئی
سری نگر//کشمیر انتظامیہ نے جمعہ کے روز سری نگر کے پائین شہر میں سخت ترین پابندیاں نافذ کرکے نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ خیال رہے کہ کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی کشمیر میں خواتین کے بال کاٹنے میں آئے روز تشویشناک اور شرمناک اضافے کے خلاف جمعہ کے روز نماز کے بعد ریاست گیر احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے جمعرات کو یہاں جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں جموں وکشمیر کے تمام حصوں بشمول جموں، پونچھ، پیر پنچال اور چناب ویلی کے علاوہ پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے عوام سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اس روز ان شرمناک حربوں کے خلاف اپنا پرامن احتجاج درج کریں۔ تاہم کشمیر انتظامیہ نے احتجاج کے دوران پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں جمعہ کی صبح ہی سخت ترین پابندیاں نافذ کیں۔ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق ، جو ہر جمعہ کو نماز کی ادائیگی سے قبل تاریخی جامع مسجد میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہیں، کو جمعرات کی صبح ہی اپنی رہائش گاہ پر نظربند کردیا گیا ۔ پابندیوں کے نفاذ کے طور پر پائین شہر کی بیشتر سڑکوں کو جمعہ کی صبح ہی سیل کردیا گیا تھا جبکہ ان پر لوگوں کی نقل وحرکت کو روکنے کے لئے بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نوہٹہ کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے دروازوں کو جمعہ کی صبح ہی مقفل کردیا گیا تھا۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ایک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا کہ ہم نے فجر کی نماز جامع مسجد کے اندر ہی ادا کی۔ لیکن فجر نماز ادا کرنے کے بعد سیکورٹی فورسز نے جامع مسجد کو بند کردیا۔ دریں اثنا پابندیوں کے نفاذ کے طور پر نالہ مار روڑ کو ایک بار پھر خانیار سے چھتہ بل تک مکمل طور پر سیل کردیا گیا تھا۔ اس روڑ کے دونوں اطراف رہائش پذیر لوگوں نے بتایا کہ فجر نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد اس روڑ پر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے جنہوں نے لوگوں کی آمدورفت محدود کردی۔ سیکورٹی فورسز نے نواب بازار، زالڈگر، راجوری کدل اور نوہٹہ میں بھی تمام اہم سڑکوں کو سیل کردیا تھا۔ لوگوں نے الزام لگایا کہ مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو پابندی والے علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سخت ترین پابندیوں کے نتیجے میں پائین شہر میں تمام تعلیمی ادارے جمعہ کو بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج ٹھپ رہا۔ سرکاری اور نجی دفاتروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی اپنے ہی گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ دریں اثنا حریت کانفرنس (ع) کے ترجمان نے ریاستی حکمرانوںکی جانب سے ایک بار پھر مرکزی جامع مسجد سری نگر کے ارد گرد پہرے بٹھائے جانے، کرفیو کے نفاذ وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ پائین شہر کے بیشتر علاقوںمیں بندشوں، قدغنوں کے نفاذ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے حکمرانوں کا فسطائی طرز عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکمران طبقہ یہاں کے عوام کی سیاسی آزادی سلب کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مذہبی آزادی کو بھی طاقت کے بل پر سلب کررہے ہیں اور مرکزی جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر آئے روز کی پابندی ان جارحانہ حربوں کی ایک کڑی ہے۔ ترجمان نے ریاستی انتظامیہ کی جانب سے حریت چیرمین میرواعظ ڈاکٹر مولوی عمر فاروق کو اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کرکے ان کی جملہ دینی و سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور شہر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کا نفاذ کرکے مشترکہ علیحدگی پسند قیادت کی جانب سے وادی میں عورتوں کے بال کاٹنے کے شرمناک واقعات کے خلاف ریاست گیر احتجاج کو ناکام بنانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ہر محاذ پر ناکام ریاستی حکمران آئے روز حریت چیرمین کو کسی نہ کسی بہانے نظر بند کرکے اور کشمیری عوام کے پر امن احتجاج پر قدغن عائد کررہے ہیں جو یہاں کے حریت پسند قیادت اور عوام کے تئیں ریاستی حکمرانوں کی انتقام گیرانہ پالیسی کا واضح مظہر ہے۔ حریت ترجمان نے کہا کہ حکمرانوںکا یہ طرز عمل اس بات کا عکاس ہے کہ ان کی عوام کش پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ان کی نظر میں جرم بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ امن و قانون کا بہانہ بنا کر یہاں کی مزاحمتی قیادت کو تھانوں اور گھروں میں مقید کررہے ہیں اور نہتے عوام کیخلاف بلا جواز کرفیو لگا کر گھروں میں محصور کررہے ہیں ۔ ترجمان نے بزرگ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی مسلسل خانہ نظر بندی اور جموںوکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کو گرفتار کرکے تھانے میں مقید کئے جانے کی مذمت کی ہے ۔ اس دوران وادی میں عورتوں کے بال کاٹنے کے شرمناک واقعات کے خلاف علیحدگی پسند قیادت کے ریاست گیر احتجاجی پروگرام کی پیروی میں متعدد مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جس دوران ان واقعات کے خلاف ریاستی حکمرانوں کی مبینہ ناکام پالیسیوں پر شدید احتجاج کیا گیا ۔ اس ضمن میں حریت کانفرنس کے متعدد رہنمائوں جن میں مشتاق احمد صوفی ، فاروق احمد سوداگر، محمد یوسف بٹ، فاروق احمد، محمد صدیق ہزار اور ساحل احمد وار اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے صورہ آنچار میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور کشمیر میں آئے روز عورتوں کے خلاف شرمناک جرائم کی شدید مذمت کی گئی ۔ مظاہرین نے ریاستی حکومت کی جانب سے ان واقعات میں ملوث عناصر کے گرفتاری کے ضمن میں لیت و لعل اور غیر ذمہ دارانہ پالیسی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت ان انسانیت سوز واقعات پر روک لگانے میں قطعی طور ناکام ہو چکی ہے۔ خواتین کے بال کاٹنے کے خلاف ریاست گیر احتجاجی پروگرام کے تحت حریت کانفرنس (گ) نے حیدرپورہ، خانیار اور پانتھہ چوک میں بعد نماز جمعہ احتجاجی مظاہرے کئے۔ احتجاجیوں سے خطاب کرتے ہوئے حریت راہنماؤںنے کہا کہ وادی کشمیر کے شہروگام میں پیش آرہے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے مسلسل واقعات کشمیری عوام کو خوف وہراس کرنے کی ایک خطرناک سازش ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پہلے بھارت کی کچھ ریاستوں میں ایسی شرمناک عمل کا آغاز کیا گیا، تاکہ جموں کشمیر کے خطہ میں اس کو جواز پیش کیا جاسکے۔