کے این ایس
سرینگر// سابق مذاکرات کار اور ماہر ِتعلیم رادھا کمار نے نریندر مودی کی سربراہی والی مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر کےلئے مذاکرات کارنامزد کئے جانے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس کی سربراہی والی یو پی اے حکومت نے ڈلیپ پڈگاؤنکر کی سربراہی والی رابط کاروں کے گروپ کی رپورٹ اور سفارشات پر عمل در آمد کیا گیا ہو تا ،تو شاید 2016کی ایجی ٹیشن یا بے چینی کی لہر پیدا نہیں ہوتی ۔ان کا کہناتھا کہ اُنکے مذاکرات کار گروپ کی رپورٹ زمینی سطح پر حاصل کی گئی معلو مات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی جبکہ کشمیر میں تشدد یا بے چینی کی وجوہات پر مبنی بھی تھی ۔انہوں نے کہا کہ دلیپ پڈؤ نکر کی سربراہی والی مذاکرات کار گروپ کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو صرف نظر کرکے کانگریس نے ایک موقع کھو دیا ۔ان کا کہناتھا کہ اگر اُنکی رپورٹ اور سفارشات پر عمل در آمد کیا گیا ہوتا ،تو کشمیر کی صورتحال آج مختلف ہوتی اور شاید2016 بے چینیکی لہر پیدا نہیں ہو تی ۔ان کا کہناتھا کہ اُنکی رپورٹ اور سفارشات مذاکرات اور آر پار تجارت پر مبنی تھی لیکن بد قسمتی سے اُس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا ۔تاہم رادھا کمار نے مودی حکومت حکومت کی جانب سے سا بق انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ دنیشور شرما کو کشمیر کےلئے مذاکرات کارکے بطور نامزد کئے جانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب نو منتخب مذاکرات کار اپنی رپورٹ اور سفارشات پیش کریں گے ،اُس پر عمل در آمد کیا جائیگا۔سابق مذاکرات کار نے کہا کہ کشمیر میں عام احساس یہ ہے کہ حکومت ہند کو کشمیر ی عوام کی پر یشانیوں کی کوئی فکر یا تشویش نہیں ہے ۔رادھا کمار نے کہا کہ نو منتخب مذاکرات کارحریت سمیت تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کریں گے ۔انہوں نے کہا ’میں نے ہر وقت حریت کےساتھ مذاکرات کی وکالت کی کیو نکہ یہ ثمر آؤر ثابت ہونگے ‘۔انہوں نے کہا کہ حریت کو بات چیت کےلئے آگے آنا چاہئے کیو نکہ ماضی میں انہوں نے بات چیت کے کئی موقعے کھو دئے ۔ان کا کہناتھا کہ اگر وہ عوام کے احساسات ،جذبات کے حقیقی نمائندے ہیں ،تو اُنہیں بات چیت کےلئے آگے آنا چاہئے ۔یاد رہے کہ2010کی عوامی ایجی ٹیشن کے بعد اُس وقکی مرکزی حکومت جوکہ کانگریس کی سر براہی والی یو پی اے سرکار تھی ،نے نامور صحافی دلیپ پڈگاؤ نکر کی سربراہی میں تین رُکنی مذاکرات کی ٹیم تشکیل دی تھی ۔اس ٹیم میں ایم ایم انصاری اوررادھا کمار شامل تھیں ۔انہوں نے ریاست کے تینوں خطوں میں درجنوں وفود سے ملاقات کرکے سفارشات پر مبنی ایک رپورٹ کومرکزی سرکار کو سونپ دی تھی ،لیکن کانگریس نے اس رپورٹ پر عمل در آمد نہیں کیا ۔