سرینگر میں 8 ویں محرم کے تاریخی ماتمی جلوس پر پھر پابندی عزاداروں کے خلاف آنسو گیس کا استعمال، درجنوں عزا دار حراست میں لئے گئے

اڑان نیوز
سری نگر// حکومت کے دعوے کہ ’کشمیر میں محرم کے جلوسوں پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد نہیں ہے‘ کے محض دو روز بعد کشمیر انتظامیہ نے جمعہ کے روز گرمائی دارالحکومت سری نگر کے آٹھ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں سیکورٹی پابندیاں عائد کرکے سول سکریٹریٹ سے کچھ دوری پر واقع گروبازار علاقہ سے برآمدہونے والے 8 ویں محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوس کو مسلسل 28 ویں دفعہ برآمد ہونے سے روک لیا۔ اگرچہ سینکڑوں عزاداروں نے سیکورٹی پابندیاں توڑتے ہوئے اس تاریخی ماتمی جلوس کو نکالنے کی کوشش کی، لیکن سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس اور شدید لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ درجنوں عزاداروں کو تحویل میں بھی لیا گیا۔ یو این آئی کے نامہ نگار کے مطابق سیکورٹی فورسز نے ڈلگیٹ علاقہ میں جمع ہونے والے عزاداروں کے خلاف آنسو گیس کے متعدد گولے داغے اور شدید لاٹھی چارج کیا۔ بتہ مالو اور تاریخی لال چوک میں جمع ہونے والے عزاداروں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مولانا آزاد روڑ پر بھی آنسو گیس کے کچھ گولے داغے گئے۔ سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں متعدد عزاداروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے 27 ستمبر کو ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ ’سری نگر سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روز نامہ میں گمراہ کن رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ کشمیر میں محرم کے جلوسوں پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد نہیں ہے‘۔ اس بیان سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ وادی میں 27 برس کے وقفہ کے بعد 8 ویں اور 10 ویں محرم کے ماتمی جلوسوں پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جائے گی، لیکن حکومتی دعویٰ محض ایک سراب ثابت ہوا اور سری نگر میں ایک بار پھر پابندیاں عائد کرکے 8 ویں محرم کے تاریخی ماتمی جلوس کو برآمد ہونے سے روک لیا گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اگرچہ جمعہ کو درجنوں عزادار بتہ مالو اور تاریخی لال چوک میں نمودار ہوئے اور’یا حسین یاحسین، یا عباس یا عباس ‘ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ڈلگیٹ کی طرف بڑھنے لگے لیکن سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے انہیں منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا اور ان میں سے کئیوں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہوئے حراست میں لے لیا۔ کشمیر میں سری نگر کے گروبازار اور آبی گذر (تاریخی لال چوک) علاقوں سے برآمد ہونے والے 8 ویں اور 10 ویں محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوسوں پر ریاست میں ملی ٹنسی کے آغاز یعنی 1989 سے پابندی عائد ہے۔ اِن دو تاریخی ماتمی جلوسوں پر 1989 میں اُس وقت کے ریاستی گورنر جگ موہن نے پابندی عائد کردی تھی۔ اُس وقت مرکز میں موجودہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز تھے ۔ اگرچہ پابندی کے خلاف جموں وکشمیر اتحادالمسلمین نے 2008 میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تاہم کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کشمیری شیعہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ محرم جلوسوں پر عائد پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’عالمی منشور اور ہندوستانی آئین کے تحت مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کو مذہبی معاملات بجا لانے ، مذہبی تقریبات کا انعقاد کرنے اور مذہبی جلوس نکالنے کا حق حاصل ہے مگر کشمیر میں انتظامیہ حالات کو بنیاد بناکر دو تاریخی محرم جلوسوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ پولیس نے 8 ویں محرم کے ماتمی جلوس نکالنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے سری نگر کے آٹھ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میںجمعہ کی صبح ہی سخت ترین سیکورٹی پابندیاں نافذ کردی تھیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ شہر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے شہید گنج، کرن نگر، مائسمہ، کوٹھی باغ، شیر گڈھی، بتہ مالو اور رام منشی باغ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت پابندیاں نافذ کردی گئی ہیں ۔ لال چوک کی طرف جانے والے کچھ اہم راستوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا تھا جبکہ ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری لال چوک اور اس کے ملحقہ علاقوں میں تعینات کردی گئی تھی۔ سیکورٹی فورس اہلکار گاڑی کو جہانگیر چوک سے آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے سری نگر کے بیشتر علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ شہر بھر خاص طور پر سیول لائنز کے علاقوں میں سیکورٹی فورسز اور ریاسی پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر رکھی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ شہید گنج کو جانے والے راستوں کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا تھا جبکہ گروبازار جہاں سے 8 ویں محرم کے تاریخی ماتمی جلوس کو برآمد ہونا تھا کی طرف کسی بھی شخص کو پیش قدمی کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ ڈلگیٹ میں واقع حیدریہ ہال جہاں اس تاریخی ماتمی جلوس کو اختتام پذیر ہونا تھا، کی طرف جانے والی سڑکوں کو بھی خاردار تار سے سیل کردیا گیا تھا ۔ ڈلگیٹ کے ایک رہائشی فدا محمد نے بتایا ’علاقہ میں جمعہ کی علی الصبح ہی بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی نفری تعینات کی گئی۔ علاقہ کی طرف جانے والی بنیادی سڑک کوخاردار تار سے بند کیا گیا ہے‘۔ سنہ 2012 میں 8 ویں اور 10 ویں محرم کے تاریخی جلوسوں پر عائد پندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک عزادار نے خود کو آگ لگاکر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔ 1989 ء سے قبل جہاں 8 ویں محرم کا ماتمی جلوس سری نگر کے گرو بازار علاقے سے برآمد ہوکر مولانا آزاد روڑ کے راستے سے ہوکر حیدریہ ہال ڈلگیٹ پر اختتام پذیر ہوتا تھا وہیں 10 ویں محرم کا جلوس لال چوک کے آبی گذر علاقے سے برآمد ہوکرامام بارگاہ جڈی بل پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ انتظامیہ گذشتہ 27 برسوں سے 8 اور 10 محرم کو سری نگر کے سیول لائنز علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کرکے ماتمی جلوس نکالنے کی کوششوں کو ناکام بناتی آئی ہے۔ اگرچہ سینکڑوں عزادار ہر سال کرفیو اور پابندیوں کے باوجود ماتمی جلوس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرکے انہیں منتشر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ عزاداروں کو حفاظتی تحویل میں لیا جاتا ہے اور بعض شیعہ علماء کو محرم جلوس کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے انہیں اپنے گھروں میں نظر بندکیا جاتا ہے۔