پی ڈی پی، بی جے پی حکومت جھوٹی تسلی اور یقین دہانیوں کی عادی: عمر عبداللہ

کے این ایس
سری نگر// سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام لگایا ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت جھوٹی تسلی اور یقین دہانیاں دینے کی عادی بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی اور کاروباری انجمنوں کو گذشتہ چند برسوں سے زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پہلے 2014کا سیلاب، پھر نوٹ بندی اور اب جی ایس ٹی کا اطلاق۔ میں تجارتی اور کاروباری انجمنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے معقول ریلیف نہ ملنے کے باوجودسخت مشکلات کے باوجود اپنے کاروبار پھر سے شروع ہوئے ۔ عمر عبداللہ جو کہ ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر ہیں، نے ان باتوں کا اظہار منگل کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹرس نوائے صبح کمپلیکس میں کشمیر چیمبر فار کامرس اینڈ انڈسٹریز کی نو منتخب ایگزیکٹو باڈی سے ملاقات کے دوران کیا۔ پارٹی ترجمان کے مطابق میٹنگ کے دوران وادی کے تاجروں اور کاروباری اداروں کو درپیش مختلف نوعیت کے معاملات اور چیلنجوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ میٹنگ میں پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سینئر لیڈر مبارک گل،ریاستی ترجمان جنید عظیم متو اور سابق ایم ایل سی ڈاکٹر بشیر احمد ویری بھی موجود تھے۔کے سی سی ایگزیکٹیو باڈی ڈیلی گیشن میں سینئر نائب صدر ناصر حمید خان، سکریٹری جنرل ڈاکٹر غزالہ امین، جوائنٹ سکریٹری جنرل مظفر ماجد جان، خزانچی شیخ عمران احمد کے علاوہ ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران شیخ عاشق احمد، سعید مسود احمد شاہ، اشفاق صدیق ڈگ، منظور احمد پختون، پرویز احمد بٹ، آصف صدیق، فاروق امین، چودھری محمد شاہد، شیخ گوہر علی، عادل حسین، فیاض احمد اور عمر ترمبو پر مشتمل تھا۔ترجمان نے میٹنگ کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو باڈی نے عمر عبداللہ کو ریاست میں جی ایس ٹی کے اطلاق ،ریاست کی اقتصادیات پڑے مضر اثرات اور تجارتی طبقہ کو ہوئے زبردست نقصان کے بارے میں جانکاری دی۔ وفد نے سیاحتی شعبہ، جو ریاستی اقتصادیات میں ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، میں حد سے زیادہ سست رفتاری اور کسادبازاری کو بھی اُجاگر کیا اور کہا کہ ریاست کی معیشت پہلے ہی انڈسٹریل اور پاور سیکٹر پالیسی سے مشکلات کی شکار تھی جبکہ اُمید سے کم یا نہ چلنے والے پبلک سیکٹر یونٹ خزانہ عامرہ اور ریاستی معیشت کے لئے سفید ہاتھی ثابت ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ وفد نے صنعت کاری، ہینڈی کرافٹس، ہینڈلوم، ریٹیل اور سیاحتی شعبے سے متعلق دیگر چیلنجوں کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا اور کہا کہ کاروباری ، دستکاری اور دیگر تجارتی شعبوں سے وابستہ ایسے افراد کے روزگار کو بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے ، جو گذشتہ چند سالوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔اس موقعے پر عمر عبداللہ نے چیمبر فار کامرس اینڈ انڈسٹریز کی نومنتخب ایگزیکٹو باڑی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات کی اُمید ظاہر کی کہ وہ تجارتی و کاروباری طبقوں کے مفادات کیلئے کام کے مشن میں کامیابیوں سے سرفراز ہوں گے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کے سی سی آئی اور نیشنل کانفرنس کا رشتہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کے زمانے میں شروع ہوا یہ رشتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔وفد سے مخاطب ہوتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ تجارتی اور صنعتی طبقوں کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان طبقوں کے مسائل و مشکلات اور مطالبات کو ہر ایک سطح پر اُجاگر کریں اور ان کا سدباب کرانے کی ہر ممکن ہوشش کریں۔ حکومت ہر وقت آپ کی رائے لینے کے لئے دستیاب ہونی چاہئے اور آپ کے مشوروں کو پالیسیوں اور اہم فیصلوں میں جگہ ملنی چاہئے کیونکہ آپ ریاست کی معیشت کو فروغ دینے میں بنیادی فریق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی اور کاروباری انجمنوں کو گذشتہ چند برسوں سے زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلے 2014کا سیلاب، پھر نوٹ بندی اور اب جی ایس ٹی کا اطلاق۔ میں تجارتی اور کاروباری انجمنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے معقول ریلیف نہ ملنے کے باوجودسخت مشکلات کے باوجود اپنے کاروبار پھر سے شروع ہوئے ۔عمر عبداللہ نے کہا کہ موجودہ حکومت جھوٹی تسلی اور یقین دہانیاں دینے کی عادی بن گئی ہے۔پی ڈی پی بھاجپا حکومت نے سابق نیشنل کانفرنس کی سربراہی والی حکومت کی طرف سے 44000کروڑ سیلاب ریلیف پیکیج کی تنقید کی اور مرکزی سرکار یہ ریلیف پیکیج فراہم کرنے کا بہانہ فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے 44000کروڑ کے پیکیج کو نامنظور کروانے کے بعد موجودہ حکومت نے اس جانب کوئی بھی توجہ مبذول نہیں کی اور نہ ہی مرکز سے سیلاب سے متاثرہ ڈھانچے کے لئے کوئی پیکیج کا مطالبہ کیا۔عمر عبداللہ نے کے سی سی آئی کی ایگزیکٹو باڈی کو یقین دہانی کرائی کہ نیشنل کانفرنس تجارتی اور کاروباری انجمنوں کی مانگوں اور مطالبوں کے علاوہ اُن کے مسائل اور مشکلات کو ہر سطح پر اجاگر کریں گے۔