واجپئی پہل پر بریک کانگریس نے لگائی ’امن کی کرنیں پھوٹنے لگی ہیں ‘ نوجوانوں کی بیگانگی کے لئے نیوز چینل ذمہ دار ، بھارت اور بھارتیوں کو کشمیر اور کشمیریوں کا مخالف بنا دیا : وزیر اعلیٰ

اڑان نیوز
سرینگر// وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے’’کشمیرسے متعلق تکونی مذاکراتی عمل کی وکالت‘‘کرتے ہوئے کہاکہ واجپائی کی پہل وپیشرفت پربریک لگنے کیلئے 10سال تک برسراقتداررہی سابق کانگریس سرکارذمہ دارہے۔انہوں نے کشمیری نوجوانوں اوربچوں کی بیگانگی کیلئے نیوزچینلوں کوذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہاکہ منفی پروپیگنڈے نے بھارت اوربھارتیوں کوکشمیراورکشمیریوں کامخالف بنادیا۔محبوبہ مفتی نے کشمیرسے متعلق منفی تصویرکشی کوسیاحتی صنعت کے روبہ زوال ہونے کی بنیادی وجہ سے تعبیرکرتے ہوئے کہاکہ آج کشمیرمیں ہوٹل ،ریستوراں ،ہائوس بوٹ خالی پڑے ہیں ،جسکے نتیجے میں سیاحتی انڈسٹری سے وابستہ طبقے معاشی اورمالی بحران کاسامناکررہے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے وادی میں امن کی کرنیں پھوٹنے کوحوصلہ افزاء قراردیتے ہوئے اس یقین کااظہارکیاکہ ریاست اور ریاستی عوام کوامن کے فائدے ضرورملیں گے۔انہوں نے ہندوپاک کے مابین جلدازجلدبحالی مذاکرات کوناگزیرقراردیتے ہوئے سوالیہ اندازمیں کہاکہ کب تلک ریاست اورریاستی عوام ہمسایہ ملکوں کی دشمنی اورمنافرت کی سزاجھیلتے رہیں گے ۔وزیر اعلیٰ نے محبوبہ مفتی نے ایک انٹرویوکے دوران کہاہے کہ کشمیر میں امن کی کرنیں پھوٹنے لگی ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ بہت جلد نہ صرف کشمیری عوام بلکہ پوری ریاست کے لوگوں کو امن کے فائدے حاصل ہونگے ۔ سرینگر میں اپنی سرکاری رہائشگاہ پر خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے ساتھ ایک اہم انٹرویو کے دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر وادی میں اب حالات کافی بہتر ہوئے ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ بہت جلد وادی میں امن و امان کی صورتحال معمول پر ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ امن کا ہی نتیجہ ہے کہ وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کی اور مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تمام متعلقین کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ راج ناتھ سنگھ کے بعدبھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے بھی کہا کہ مرکزی حکومت کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے ۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ حوصلہ افزا آثار ہیں کہ کشمیر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتے ہی مرکزی حکومت نے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کا واضح اشارہ دیا ہے ۔ تاہم وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ اگر ملکی سطح پر کشمیر سے متعلق کوئی منفی تصور پایا جاتا ہے تو اس کیلئے نجی نیوز چینلیں ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان ٹی وی چینلوں نے کشمیر کو ہمیشہ جلتا دکھایا اور فتنہ انگیز مباحثوں کے دوران سبھی کشمیریوں کو امن دشمن قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ محبوبہ مفتی نے سوال کیا کہ اگر کشمیر کی آبادی 70 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے سیکورٹی ایجنسیوں کے بقول صرف 00 2 یا 300 نوجوان ملی ٹنسی کی راہ پر ہیں تو اس کا قطعی طور یہ مطلب نہیں کہ پوری کشمیری قوم ہی جنگجو بنی ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جہاں 200 یا 300 نوجوان بندوق اٹھائے ہوئے ہیں ، وہیں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان فوج اور دیگر فورسز میں کام کر رہے ہیں لیکن اس کا نہیں ذکر نہیں ہوتا ۔ وزیر اعلیٰ نے ایک سوال کے جواب میں اس بات پر برملہ اعتراف کیا کہ کشمیری نوجوانوں اور بچوں میں بے گانگی پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کسی علاقہ میں کریک ڈائون ہوتا ہے تو نوجوان اور بچے پتھر بازی شروع کرتے ہیں ۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی سے حالیہ دنوں میں کشمیر سے متعلق جو بیانات آرہے ہیں وہ کافی حوصلہ افزا ہیں کیونکہ مذاکرات ہی ایسا واحد راستہ ہے جس پر چل کر مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں اور معمول کے حالات بھی بحال کئے جاسکتے ہیں ۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر سے متعلق جو پالیسی اٹل بہاری واجپائی نے اپنائی تھی ، اس پالیسی کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ واجپائی جی نے اپنے دور میں نہ صرف کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کی تھی بلکہ ایسے لوگوں کو پاکستان سے بات کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی ۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ اگر واجپائی کی کشمیر پالیسی ، کشمیر اور پاکستان سے متعلق پہل و پیش رفت میں رکائوٹ پیدا ہوئی تو اس کیلئے کانگریس کی سربراہی والی یو پی اے سرکار ذمہ دار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 10 برس تک یہ سرکار مرکز میں بر سر اقتدار رہی لیکن اس نے واجپائی کی جانب سے کشمیر اور پاکستان سے متعلق اپنائی گئی پالیسی کو آگے نہیں بڑھایا ، جس کے نتیجے میں بحال ہوا اعتماد پھر ٹوٹ گیا ۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اگر مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے تو اس کیلئے ہمسایہ ملک ذمہ دار ہے کیونکہ بقول موصوفہ وزیر اعظم مودی نے پہل کی لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا ۔ تاہم وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ریاست جموںوکشمیر میں حالات بہتر بنانے کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات ناگزیر ہیں ۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کب تک ریاست اور ریاستی عوام ہمسایہ ممالک کی دشمنی اور منافرت کی سزا جھیلتے رہیں گے ۔