ہم غریبی سے لڑرہے ہیں ، پاکستان ہم سے سوراج کے جارحانہ سُر اقوام متحدہ میں وزیر خارجہ کا خطاب

اقوام متحدہ//وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کو سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام حدیں پارکرنیوالاملک ہندستان کو انسانیت اور حقوق انسانی کا سبق پڑھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ششما سوراج نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے خطاب میں ہندستان پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات عائد کئے ہیں جبکہ اصلیت یہ ہے کہ ہندستان غریبی سے لڑ رہا ہے اور پاکستان ہندستان سے لڑرہا ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ہندستان پر دہشت گردی کی معاونت کرنے والا اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا الزام تک لگایا۔یہ الزام وہ ملک لگارہا ہے جس نے تمام حدیں پار کرکے سینکڑوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاست دانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ دونوں ملکوں نے ساتھ ساتھ آزادی حاصل کی لیکن ہندستان نے پوری دنیا میں اطلاعاتی ٹکنالوجی کے مرکز کے طورپر اپنی شناخت قائم کی ہے جبکہ پاکستان کی شناخت ایک دہشت گرد ملک کی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان نے پاکستان کے دہشت گردی کے چیلنج کو گھریلو ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ سوراج نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردتنظیمیں اور ان کے ٹھکانے بنائے جبکہ ہندستان نے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائے۔انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے آئی آئی ٹی ،آئی آئی ایم ، ایمس جیسے ادارے بنائے جبکہ پاکستان نے لشکر طیبہ ،حزب المجاہدین اور حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنائیں۔ہم نے اسکالر ،ڈاکٹر ،سائنس داں اور انجینئربنائے جبکہ پاکستان نے دہشت گرد اور جہادی پیداکئے۔ہندستان نے دنیا کے مسائل کے حل کے لئے قائم اقوام متحدہ کو خود ہی مسائل سے دوچار قراردیتے ہوئے سلامتی کونسل میں اصلاحات اور توسیع کے لئے جلد ازجلد غور وخوض شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلی اور اتھل پتھل پر بحث کررہے ہیں لیکن جو ادارہ دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بنا ہے آج وہ خود مسائل سے دوچار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ ان ضرورتوں کو پورا نہیں کرپارہا ہے جن کے لئے یہ بنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 18ستمبر کو اقوام متحدہ میں اصلاحات پر ایک میٹنگ میں انھوں نے حصہ لیا تھا جس میں اس عالمی ادارے میں اصلاحات کے لئے کچھ کرنے کی بے قراری نظر آئی۔2005کے عالمی اجلاس میں ایک اتفاق رائے قائم ہواتھا کہ سلامتی کونسل میں فورا اصلاحات اور توسیع اقوام متحدہ کی اصلاحات کا اہم حصہ ہے۔سوراج نے کہا کہ اقوام متحدہ کے نئے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹریس سے ان کی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔اگر وہ امن وسلامتی کے ڈھانچہ میں اصلاحات چاہتے ہیں تو انھیں اس سے جڑی اصلاحات پر فورا قدامات کرنے ہوں گے۔سلامتی کونسل میں اصلاح کئے بغیر عالمی نظام میں اصلاح کے ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔سوراج نے کہا کہ ’’پاکستان کے لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے ڈاکٹر مرتے ہوئے لوگوں کو بچاتا ہے اور دہشت گرد زندہ لوگوں کو مارتا ہے۔‘‘ انھوں نے پاکستان کو نصیحت دی کہ جو پیسہ وہ دہشت گردوں کی مدد میں لگا رہا ہے اگر وہ پیسہ اپنے ملک کی ترقی پر خرچ کرے تو سبھی کو دہشت گردی سے نجات ملے گی اور ملک کی ترقی بھی ہوگی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے پرانی قراردادوں کا ذکر کیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ شملہ سمجھوتہ اور لاہور اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ دونوں ممالک دوطرفہ معاملے آپس میں مل کرحل کریں گے اور تیسرے فریق کی ثالثی تسلیم نہیں کی جائی گے۔ سوراج نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے جامع مذاکرت کا معاملہ اٹھایا۔انھیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے دسمبر 2015میں اسلام آباد میں انکے ساتھ بات چیت میں یہ فیصلہ کیاتھا کہ دونوں ملکوں کے مابین بات چیت نئے سرے سے شروع ہوگی اور اسے جامع دوطرفہ بات چیت کا نام دیا گیا۔انھوں نے کہا کہ دوطرفہ لفظ کو سوچ سمجھ کر شامل کیا گیا تھاتاکہ اس بات میں کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ یہ بات چیت صرف دونوں ملکوں کے مابین ہوگی اور اس میں کوئی تیسرا فریق نہیں ہوگا۔سلسلہ شروع ہوا اسکی جوابدہی ہندستان کی نہیں بلکہ پاکستان کی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہندستان عرصہ سے دہشت گردی کا شکار ہے۔پہلے جب ہم دہشت گردی کی بات کرتے تھے تو عالمی برادری اسے نظم ونسق سے جڑامعاملہ بتاتی تھی۔عالمی برادری سے اس پر خوداحتسابی کی اپیل کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر بین الاقوامی کانفرنس کے اعلانیہ میں دہشت گردی کا ذکر ہوتا ہے اور اس کے خاتمہ کا عزم کیا جاتا ہے لیکن یہ روایت بن گئی ہے کہ جب اسے پوراکرنے کا وقت آتا ہے تو ہرملک اپنے مفاد کو ذہن میں رکھ کر اپنا موقف اختیار کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کو الگ الگ نظریہ سے دیکھنا بند کرنا ہوگا کیونکہ کتنی بھی بڑی وجہ کیوں نہ ہو دہشت گردی کو جائز نہیں ٹھہریاجاسکتا۔ ہندستان نے 1996میں بین الاقوامی دہشت گردی پر جامع معاہدے کی تجویز رکھی تھی لیکن دو دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی دہشت گردی کی تشریح پر متفق نہیں ہوپائے ہیں۔جب ہم اپنے دشمن کی تشریح کرنے پر متفق نہیں ہوسکتے تو ہم ایک ساتھ مل کراس سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دہشت گردوں کی فہرست تیار کرنے پر متفق نہیں ہوسکتی تو ہم مل کرکیسے لڑ سکتے ہیں۔