نعیم رو پڑے،ایک اور کربلا برپا کی حملہ آور نہ ترال اور ناہی کشمیر کے خیر خواہ ہوں گے

سید اعجاز
ترال//حملہ آور نا ہی ترال کے اور نا ہی کشمیر کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں ان باتوں کا اظہار وزیر تعمیرات و پی ڈی بی کے ترجمان نعیم اختر نے ترال میں ان کے قافلے کے گرینیڈحملے کے بعد پولیس تھانہ ترال کے اندر میڈیا سے بات کر رہے تھے ریاست کے وزیر تعمیرات نعیم اختر نے زبردست جذباتی ہو کر اشک بار آنکھوں سے ترال واقعے میں مرنے والے عام شہریوں کی ہلاکت کو انتہائی بد قسمتی قرار دیتے ہوئے مہلوک کے واراثان کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا ترال کو آج تک نظر انداز کیا گیا ہے ۔جبکہ وادی میں نامساعد حالات کے دوران بھی ہم یہاں نہیں پہنچ سکے ہیںاور آج کل علاقے کی تعمیر ترقی کا جائزہ لینے کے لئے ہم پورے علاقے میں ہورہے کام کاج کا جائزہ لیںگے جہاں ایک سو کروڑ کی کام بہتر انداز سے چل رہا ہے جہاں سڑکیں بن رہی ہیںاور عام لوگ اپنے مشکلات لے کر میرے پاس آئے اور ہمارا قافلہ ترال بس اسٹینڈ سے آگے گزر گیا جس کے دوران اس پر حملہ کیا گیاہے ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا۔انہوں نے زبردست جذباتی ہو کر کہا کہ آج یوم کر بلا تھا اور ان لوگوں نے ایک اور کربلا برپا کیا ہے ۔نعیم اختر نے کہا یہ لوگ (حملہ آور)نہ ہی ترال اور نہ ہی کشمیر کے خیر خواں ہو سکتے ہیں اس مار دھاڑسے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔شہری ہلاکتوں کا دکھ مجھے زندہ رہنے تک دل میں رہے گا۔اگر چہ ہم انہیں واپس نہیں لاسکتے ہیں تاہم ان کے لواحقین کے امداد کے بارے میں وہ وزیر اعلیٰ سے بات کریں گے۔نعیم اختر طے شدہ دورے کو حملے کی وجہ سے موخر کر کے سخت سیکورٹی حصار میںواپس سرینگر روانہ کئے گئے ہیں۔ علاقے میں زبردست خوف دہشت کا ماحول برابر جاری تھا۔۔ انہوں نے کہا کہ ’موت کا دن متعین کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور نعیم اختر اسی دن داعی اجل کو لبیک کہے گا جس دن میری موت لکھی ہوگی‘۔ نعیم اختر جو کہ پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر ہیں، نے جمعرات کو قصبہ ترال کے بس اسٹینڈ میں اپنے قافلے پر ہوئے حملے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حملے میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کا صدمہ زندگی بھر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ حملہ آوروں نے بے گناہوں کا قتل انجام دیا۔ نعیم اختر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرنے کے دوران رو پڑے۔ انہوں نے کہا ’آج ہمارے نئے سال کا پہلا دن ہے۔ محرم کی پہلی تاریخ ہے۔ انہوں نے (جنگجوؤں نے) آج یہ فیصلہ کیوں کیا کہ ایک کربلا پھر دہرائیں گے۔ جس کسی نے بھی یہ کیا ہے نہ وہ ترال کا دوست ہے اور نہ کشمیر کا خیر خواہ ہے۔ نہ وہ اسلام کا خیر خواہ ہے۔ کیوں ہم تباہی کررہے ہیں۔ اس سے کیا نکلے گا؟‘۔ وزیر موصوف نے کہا کہ موت کا دن متعین کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور ’نعیم اختر اسی دن داعی اجل کو لبیک کہے گا جس دن میری موت لکھی ہوگی‘۔ انہوں نے کہا ’موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس دن میری موت لکھی ہوگی اسی دن ہوگی۔ اس سے پہلے نہیں ہوگی۔ ان لوگوں نے ان بے گناہوں کا خون اپنے سر پر لیا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ میں اور میرے ساتھی بچ گئے لیکن جو لوگ مرگئے، اس کا صدمہ مجھے زندگی بھر رہے گا۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکر ہے کہ کب تک ہم اپنا خون بہاتے رہیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’ترال بہت پسماندہ علاقہ ہے۔ ترقی کے ثمرات اس علاقہ تک پہنچانے کی غرض سے ہی میں یہاں آیا تھا۔ یہاں اس وقت ایک کروڑ روپے کی مالیت کے ترقیاتی پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ بہت سارے لوگوں نے یہاں مجھ سے ملاقات کرکے اپنے مطالبات سامنے رکھے۔ بدقسمتی جب ہم ترال پہنچ گئے تو ہمارے قافلے پر گرینیڈ حملہ کیا گیا۔ اس میں ہمارے ایس ای (سپرنٹنڈنگ انجینئر) بال بال بچ گئے۔ مہلوکین میں اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طالبہ اور ایک 80 سالہ معمر شخص جو کہ ایک ریٹائرڈ استاد ہے، بھی شامل ہیں۔ ان کی کیا خطا تھی؟‘۔ گرینیڈ حملے کے بعد سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے بارے میں پوچھے جانے پر نعیم اختر نے کہا ’فورسز نے بہت صبر وتحمل سے کام لیا۔ کسی کی موت بلٹ لگنے سے نہیں ہوئی ہے۔ لوگ ان کے (سیکورٹی فورسز کے) خلاف روز بولتے رہتے ہیں، لیکن میرا کہنا ہے کہ یہ لوگ نہیں ہوں گے تو یہاں افراتفری مچے گی‘۔ انہوں نے مزید کہا ’ہم ان کو (مہلوکین کو) واپس تو نہیں لاسکتے ہیں، لیکن ان کے لواحقین کے حق میں بھرپور امداد کے لئے میں وزیر اعلیٰ سے ذاتی طور پر بات کروں گا‘۔