بی جے پی حکومت کے پاس کوئی کشمیر پالیسی نہیں: غلام نبی آزاد کسے ’سٹیک ہولڈر‘ مانتے ہیں وجاحت کی جائے

سری نگر //کانگریس کے سینئر لیڈراور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے الزام لگایا کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے پاس کوئی کشمیر پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو بتا دینا چاہیے کہ وہ کن کو مسئلہ کشمیر کے اسٹیک ہولڈرز مانتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت والے اعلیٰ سطحی کانگریس پالیسی پلاننگ گروپ کے ہمراہ کشمیر کے 2 روزہ دورے پر آنے والے آزاد نے ان باتوں کا اظہار ہفتہ کو یہاں کانگریس کی ایگزیکٹو میٹنگ سے قبل نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت اور ریاست میں پی ڈی پی و بی جے پی کی مخلوط حکومت معرض وجودآنے کے بعد سے وادی کشمیر دن بدن بربادی و تباہی کی طرف جارہی ہے۔ غلام نبی آزاد نے بتایا کہ پارٹی صدر سونیا گاندھی نے کشمیر کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر ہی پارٹی کا پالیسی پلاننگ گروپ تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ گروپ کشمیر میں اپنے قیام کے دوران قریب 55 وفود سے ملاقات کرے گا۔ سینئر کانگریسی لیڈر نے الزام لگایا کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے پاس کوئی کشمیر پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس (بی جے پی کے پاس) کوئی کشمیر پالیسی ہے۔ کوئی پاکستان پالیسی ہے۔ وہ (بی جے پی والے) دو قدم آگے آجانے کے بعد چھ قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اسی لئے جموں وکشمیر کے حالات مدنظر رکھتے ہوئے سونیا گاندھی نے ایک گروپ بنایا ہے۔ اس (گروپ) کی ہماری میٹنگیں دہلی میں بھی ہوتی ہیں۔ دہلی میں ابھی تک تین چار میٹنگیں ہوئی ہیں۔ لیکن گذشتہ دفعہ ہم نے طے کیا کہ صرف آپس میں میٹنگیں کرنے سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوگابہتر یہ ہوگا کہ جموں وکشمیر کا دورہ کیا جائے۔ گذشتہ دفعہ ہم نے جموں کا دورہ کیا۔ آج ہم کشمیر کے دو روزہ دورے پر آئے ہیں۔ اب ہم طے کریں گے کہ لداخ کب جائیں گے۔ ہم یہاں بہت سارے لوگوںکے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان دوروں سے بہت فائدہ ہوگا‘۔ آزاد نے کہا کہ مرکزی حکومت کو بتا دینا چاہیے کہ وہ کن کو مسئلہ کشمیر کے اسٹیک ہولڈرز مانتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ موجودہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو طے کرنا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کون ہیں۔ بہر حال اسٹیک ہولڈر سب کو معلوم ہے۔ نام لینے سے سب ڈر جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اسٹیک ہولڈرز کی شناخت کرنے سے ڈر جاتے ہیں تو (مسئلہ کشمیر کو) حل کیسے کریں گے‘۔ انہوں نے کہا ’مودی جی اور محبوبہ جی کو طے کرنا ہے، اسٹیک ہولڈرز کون ہیں۔ اگر وہ اسٹیک ہولڈرز کا نام لینے سے ہی ڈر جاتے ہیں تو حکومت کیسے کریں گے‘۔ غلام نبی آزاد نے کہا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت اور ریاست میں پی ڈی پی و بی جے پی کی مخلوط حکومت معرض وجودآنے کے بعد سے وادی کشمیر دن بدن بربادی و تباہی کی طرف جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ’جب سے مرکز میں بی جے پی اور یہاں پی ڈی پی و بی جے پی کی ملی جلی سرکار وجود میں آئی ہے تب سے کشمیر دن بدن بربادی و تباہی کی طرف جارہا ہے۔ ہمارے وقت میں جب یو پی اے کی سرکار تھی اور یہاں ہماری ملی جلی سرکار تھی (کانگریس اور نیشنل کانفرنس یا کانگریس اور پی ڈی پی) تو تب ایک طرف ڈیولپمنٹ ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا اور بے روزگاری و بے کاری بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی۔ دوسری طرف مذاکرات کا راستہ کھل گیا تھا۔ دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یہاں ہم نے گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کرایا تھا۔ کشمیر اور جموں میں تجارت کے راستے کھولے تھے‘۔ کانگریسی لیڈر نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابات کشمیر کے نام پر جذبات ابھار کر جیتاہے۔ انہوں نے کہا ’میں کہوں گا کہ اگر نوے فیصدی مودی صاحب نے الیکشن جیتا ہے تو کشمیر کو لیکر جیتا ہے۔ ہمارے وقت میں ایک فوجی کی گردن پاکستان نے کاٹی تھی ، ان کے وقت کئی دفعہ ایسے واقعات پیش آئے۔ اس کے بعد بھی وزیر اعظم خاموش ہیں۔ لوک سبھا کے انتخابات میں انہوں نے لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے کشمیر کو بربادی کی نوک پر لایا ہے‘۔ آزاد نے بتایا کہ وہ کشمیر میں دو روزہ قیام کے دوران 45 وفود سے بات چیت کریں گے