کئی لوگوں کوخصوصی درجہ ہضم نہیں ہو تا : عمر عبداللہ ایسے قوانین دیگر ریاستوں میں بھی موجود لیکن ا نہیں ریاست کی مسلم اکثریتی ہونے سے پریشانی

اڑان نیوز
سری نگر// نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ملک میں کئی ایسے لوگ ہیں جن سے جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے اس ریاست کی خصوصی پوزیشن برداشت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ آج دفعہ 35 اے پر حملے اس لئے کئے جارہے ہیں کیونکہ بقول ان کے اہلیان جموں وکشمیر کی اپنی جماعت نیشنل کانفرنس کمزور ہے۔ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو وجود میں لانے کا مقصد نیشنل کانفرنس کو ختم کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید نے اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ عمر عبداللہ جمعرات کو یہاں نیشنل کانفرنس پارٹی ہیڈکواٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر سینئر ایڈوکیٹ نذیر احمد ملک نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔ این سی کارگذار صدر نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خلاف ہورہی مبینہ سازشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’جس ملک کا ہم حصہ ہے وہاں کئی ایسے لوگ ہیں جن سے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن برداشت نہیں ہوتی۔ جن کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر کا اپنا جھنڈا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پریشان ہیں کہ جموں وکشمیر کے وزراء اپنے آئین پر حلف کیوں اٹھاتے ہیں؟ ملک کے آئین پر حلف کیوں نہیں اٹھاتے ۔ وہ پریشان ہیں کہ غیرریاستی باشندے یہاں زمین کیوں نہیں خرید سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کے قوانین ہندوستان کی کئی دوسری ریاستوں میں بھی ہیں۔ شاید ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے اندرونی خودمختاری کی قرارداد اسمبلی میں پاس کرائی۔ اس کے چند ہی مہینوں بعد یہ نئی تنظیم (پی ڈی پی) ابھر کرسامنے آگئی۔ 2002 ء میں ہمارے پاس 28 ممبران اسمبلی تھے اور ان کے پاس شاید 16 تھے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی اس 16 ممبران والی پارٹی کو ملی جبکہ 28 والے باہر چلے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح نیشنل کانفرنس کو ختم کیا جائے‘۔ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید نے نیشنل کانفرنس کو ختم کرنے کی تمام تر کوششیں کی تھیں۔ ا نہوں نے کہا کہ جو غلام محمد شاہ صاحب کے زمانے میں کیا کیا تھا، وہی 2002 ء کے بعد کرنے کی کوشش کی۔ شاید ایک دو کی کمی رہ گئی، انہوں نے تو اپنی طرف سے تمام تر کوششیں کی تھیں۔ مقصد صرف یہ تھا کہ نیشنل کانفرنس کو کسی نہ کسی طرح ختم کیا جائے‘۔ عبداللہ نے کہا کہ ان کے دادا مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی کشمیر میں گھر گھر لیڈر پیدا ہونے کی پیش قیاسی بالکل صحیح ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ’یہ شیر کشمیر نے اس وقت کہا تھا کہ دہلی کی کوشش رہے گی کہ یہاں گلی گلی سے لیڈر پیدا ہوں۔ کشمیریوں کا ایک آواز میں بات کرنا بند ہو اوربالکل یہی ہورہا ہے۔ ہمیں الگ الگ حصوں میں بانٹا جارہا ہے۔ پہلے جموں کو کشمیر سے لڑوایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی ہونے کے نام پر الگ الگ کیا جاتا ہے۔ لیہہ اور کرگل کو الگ الگ اور گوجر و پہاڑی کو الگ الگ کیا گیا۔ مقصد یہی ہے کہ یہ قوم ایک ساتھ نہ رہیں۔ اور اس بیچ وہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرلیتے ہیں‘۔