NIAچھاپوں کا مقصداگر علحےدگی پسندوں کو خوفزدہ کرنا تو کچھ حاصل نہےں۔

سرینگر // ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ’’NIAکی مہم کوڈرائو،دھکائواورجھکائوپرمبنی‘‘قراردیتے ہوئے خبردارکیاہے کہ ایسے حربوں سے کشمیروادی میں حالات مزیدابترہوسکتے ہیں ۔ سابق وزیراعظم ووزیراعلیٰ مرحوم شیخ محمدعبداللہ کے 35ویں یوم وصال کے سلسلہ میں حضرت بل میں خصوصی دعائیہ مجلس کے حاشیے پر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے کہا کہ اگر قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA)کے ذریعے جاری چھاپوں کے سلسلے کا مقصد صرف ڈرانا ،دھمکانا اور جھکانا ہے تو حکومت ہند کو یہ بات ذہین نشین کر لینی چاہئے کہ وہ کتنا ہی ظلم کیوں نہ کرے، یہاں (کشمیر میں) کوئی اپنا ایمان بیچنے کیلئے تیار نہیں ۔انہوں نے کہاکہ اگراین آئی اے کی مہم جوئی ہراسانی اورٹارچرپرمبنی ہے تومیں دلی والوں پرواضح کردیناچاہتاہوں کہ کشمیرمیں کوئی جھکنے یاڈرنے والانہیں ہے ۔ڈاکٹرفاروق نے مرکزپرنیشنل کانفرنس کوکمزورکرنے کاالزام عائدکرتے ہوئے کہاکہ اگرفنڈنگ کی تحقیقات کرنی ہی ہے تواُن رقومات کی تحقیقات کی جائے جونیشنل کانفرنس کوزک پہنچانے کیلئے صرف کی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ NIAکے چھاپوں کا مقصد پہلے سے ہی بے چینی کی شکار وادی کے حالات کو مزید دگرگوں کرنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حریت لیڈران کو رہا کئے جائے تاکہ وہ دلی جاکر جو بات کہنا چاہتے کہہ سکیں۔ کے این ایس نمائندے کے مطابق 35Aکیخلاف جاری سازشوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان کویہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کشمیریوں نے نہ تو ماضی میں غلامی پسند کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔انہوں نے کہاکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں وکشمیر کا بھارت کیساتھ مشروط الحاق اس لئے کیا تھا کہ یہاں کے عوام کو اس الحاق سے انصاف ملے لیکن اس کے بجائے ہمیں ہر وقت تشدد کا شکار بنایا گیا۔ ڈاکٹرفاروق کاکہناتھاکہ ہمارے جمہوری ، آئینی اور سیاسی حقوق چھین لئے گئے۔ مرکزی کی بار بار غلطیوں ،وعدوں خلافیوں اور بار بار مرکزی قوانین نافذ کرنے سے آج ریاست کے حالات دن بہ دن بدتر ہوتے جارہے ہیں، حالات سدھرنے کی کوئی بھی کرن دکھائی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ مہاراجہ نے اُس بھارت کیساتھ الحاق کیا تھا جس ہندوستان ہند، مسلم ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ اپنی اپنی مذہبی آزادی اور آزادیٔ اظہارِ رائے کیساتھ بودباش کرسکیں لیکن اس وقت بھارت میں اقلیتیں خصوصاً مسلمانوں عدم تحفظ کی شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 35اے پر حملہ براہ راست جموں وکشمیر کی پہچان پر حملہ ہے اور ہم سب کو اپنی ریاست کے تقدس اور عزت و آبرو کے دفاع کیلئے متحد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 35اے سے متعلق جس طرح کی افواہیں پھیلا جارہی ہیں، کہ یہ کسی مخصوص مذہب اور علاقے کیلئے سود مند ہیں، سفید جھوٹ ہے۔ 35Aسے ریاست کے ہر خطے اور ہر مذہب کے رہنے والوں کو اپنی شناخت اور پہچان کی ضمانت بخشتا ہے ۔برما کے مسلمانوں کی حالت زار پر افسوس اور تشویشناک کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اقوام متحدہ کی غفلت شعاری کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر اب بھی ان اداروں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی تو کب کھلیں گی۔بین الاقوامی برادری کو برما کے مسلمانوں کے تحفظ کیلئے بروقت اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جو مظالم ان روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ہیں اُن سے انسانیت شرمسار ہورہی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دم بھرنے والے بڑے بڑے سپر پائوروں کے دعوے بھی سراب ثابت ہورہے ہیں۔ برما کی صدر آن سان سوچی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ موصوفہ کو دُنیا کا سب سے بڑا مانا جانے والا ’نوبل امن انعام‘ دیا گیا ہے ۔ اگر موصوفہ اپنے ملک میں مسلمانوں کیخلاف ہورہے ان انسانیت سوز مظالم پر روک نہیں لگا سکتیں تو اس نوبل انعام کی حصولیابی پر خود بہ خود سوالیہ لگ جاتا ہے۔ انہوں نے فلاحی اداروں سے اپیل کی کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کیلئے چندہ جمع کریں اور اس رقم کو نئی دلی میں قائم یونائیٹڈ نیشن کے دفتر کے سپرد کرے تاکہ یہ رقوم مستحق افراد کی راحت کاری کیلئے خرچ کئے جاسکے۔ اسے پہلے شیخ محمد عبداللہ کے۳۵؍ویں یوم وصال پر مرحوم کو خراج عقیدت ادا کرنے کی غرض سے مزار قاید نسیم باغ پر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور کارگزار صدر عمر عبداللہ نے مزار قائد پر گلباری اور فاتحہ خوانی کی۔ اجتماعی فاتحہ خوانی میں پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر ، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، چودھری محمد رمضان، محمد شفیع اوڑی، میاں الطاف احمد، شریف الدین شارق، مبارک گل، میر سیف اللہ، محمد اکبر لون، نذیر احمد خان گریزی، شمیمہ فردوس، سکینہ ایتو، علی محمد ڈار، عرفان احمد شاہ، شیخ اشفاق جبار، تنویر صادق، ایڈوکیٹ شوکت احمد میر، پیر آفاق احمد، محمد سعید آخون، قیصر جمشید لون، جاوید احمد ڈار، ڈاکٹر بشیر احمد ویری، ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی، شوکت حسین گنائی، ڈاکٹر محمد شفیع، شیخ محمد رفیع، میر غلام رسول ناز، سلمان علی ساگر اورعمران نبی ڈار کے علاوہ کئی سرکردہ لیڈران نے شرکت کی۔