ریاست میں سرکاری زبان کے ساتھ بد ترین کھلواڑ آدھار کارڈوں اور ووٹر شناختی کارڈوں میں فاش غلطیاں

ریاست میں سرکاری زبان کے ساتھ بد ترین کھلواڑ
آدھار کارڈوں اور ووٹر شناختی کارڈوں میں فاش غلطیاں
متعلقہ دفتروں میں اردو سے نابلد افراد تعینات جو ’گوگل ‘ میں انگریسی سے اردو ترجمہ کر تے ہیں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ریاست کی سرکاری زبان ’اردو‘کے خلاف حکومتی دشمنی ہرسطح پر نظر آرہی ہے۔ تین اہم ترین دستاویزات جنہیں سرکاری خدمات کی حصولی ودیگر کاموں کے لئے اہم ترین ماناجاتاہے میں اردو کی فعاش غلطیاں ہیں۔ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور الیکشن کارڈ یہ وہ اہم ترین دستاویز ہیں جوکہ ہرشہری کے لئے لازمی ہیں، لیکن ان پر لکھی اردو میں اتنی زیادہ غلطیاں ہیں۔ جموں وکشمیر ریاست میںیونیک آئیڈنٹی فکیشن اتھارٹی آف انڈیا (UIDAI)کی جانب سے عوام کوجاری کردہ آدھار کارڈوں میں سرکاری زبان ’اردو‘ کا انتہائی مذاق اڑایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایاکہ آدھار کارڈوں پر سرکاری زبان کے ساتھ جو مذاق کیا جارہا ہے، اس کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار ریاستی حکومت ہے۔ ایک شخص نے بتایاکہ ’میں نے آدھار رجسٹریشن کرواتے وقت اپنے گاو¿ں کا نام درست کرنے کے لئے رجسٹریشن عملہ کو کہاتو اس نے آگے سے کہاکہ تجھے آدھار بنوانا ہے بنواو¿، اردو غلط ہے یا درست تجھے اس سے کیا لینادینا۔آردھار کارڈ اور راشن کارڈ میں نام وپتہ کی بہت زیادہ غلطیاں ہیں۔ گوجر نگر جموں کے مقامی شہری خالد لطیف نے آدھار کارڈ ظاہر کرتے ہوئے بتایاکہ اس پر گوجر نگر کی جگہ ’گوججر نگار‘لکھاگیاہے، ویلڈنگ شاپ کی جگہ ’ونیلنٹنگ شوپ‘تحریرگیاہے۔نصیر احمد نامی ایک شخص نے بتایاکہ ان کے ان کے گاو¿ں کا نام لٹھونگ ہے لیکن اس پر تحریر کیا ہے’لٹھٹحونگ‘تحریر ہے۔ شمس الدین شاز ایڈووکیٹ نے بتایاکہ آدھار کارڈ اجراءکرنے والے محکمہ نے ریاست بھر میں آدھار کارڈوں کی رجسٹریشن کا کام ٹھیکے پر دے رکھا ہے، ٹھیکیداروں نے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں کم سے کم مدت میں یہ کام مکمل کرنے کے لئے 10ویں یا12ویں پڑھے نوجوانوں کو کام پر لگایا ہے جوکہ غلطیوں پر دھیان دیئے بغیر ہی آدھار کارڈ بنارہے ہیں جس سے کوئی بھی آدھار کارڈ ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی غلطی نہ ہو۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آدھار کارڈ بنانے پر مامور عملہ میں بیشتر ایسے ہیں جنہیں اردو پڑھنا اور لکھنا آتی ہی نہیں۔ آدھار کارڈوں کی اجرائی کے سلسلے میں شہریوں کی معلومات کے اندراج کے لئے اردو سے نابلد افراد کو مامور کردیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ کسی ایک بھی آدھار کارڈ پر صحیح املا تحریر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ریاست کی سرکاری زبان ’اردو‘ ہونے کے باوجود لاکھوں آدھار کارڈوں پر پائی جارہی اردو املا کی اغلاط کا آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ انگریزی میں جونام ، ولدیت اور سکونت لکھی ہوتی ہے اس کو ’Google Translation‘میں ڈال کر انگریزی سے اردو کیاجاتاہے جہاں پر الُٹ پلٹ اردو تحریر ہوتی ہے۔ ایک آدھار کارڈ میں محمد عزیز ، وارڈ نمبر5کالابن کی جگہ ’موحد ازز، ورڈ نو5،کلابن تحریر ہے‘۔گذشتہ ماہ ریاستی چیف سیکریٹری بی بی ویاس نے بذریعہ ویڈیوکانفرنس ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ جس میں ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریجنل دفتر UIDAIچندھ گڑھ رام سبہاگ سنگھ نے بھی شرکت کی تھی، میں بتایاگیا تھاکہ جموں وکشمیر ریاست میں104لاکھ افراد نے آدھار رجسٹریشن کروائی ہے جس میں سے 92لاکھ آدھار کارڈ بنا دیئے گئے ہیں۔ آدھار کارڈ میں کسی میں نام غلط تو کسی میں ولدیت اور کسی میں سکونت کاپتہ غلط تحریر لیکن املا کی ایک غلطی جو ہر ایک آدھار کارڈ میں موجود ہے، وہ یہ ہے کہ جموں وکشمیر ریاست کا نام ’جممو اند کشمیر‘ تحریر کیا گیا ہے۔ آدھار کارڈوں میں غلط اردو کے استعمال بارے یو آئی ڈی اے آئی علاقائی دفتر چندی گڑھ میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جموں وکشمیر کا کہنا ہے کہآدھار کارڈوں میں اردو زبان کے غلط استعمال کی ہمیں تاحال کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ اگر شکایت موصول ہوئی ہوتی اس کیلئے اصلاحی اقدامات بھی اٹھائے ہوتے‘۔آدھار رجسٹریشن کے کام سے جڑے عاشق خان نے بتایاکہ ان کے
پاس جب کوئی آدھار رجسٹریشن کروانے آتا ہے تو وہ اس کانام، ولدیت اور پتہ انگریزی میں تحریر کرتے ہیں۔گاو¿ں، تحصیل، ضلع اور ریاست کا نام پہلے سے اس سافٹ ویئر میں فیڈ ہوتا ہے جس پر ہم صرف کلک کرتے ہیں اور آدھار رجسٹریشن فیڈ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سافٹ ویئر میں پہلے سے ہی ایساسسٹم رکھاگیا ہے کہ وہ از خود انگریزی سے بذریعہ گوگل ٹرانس لیشن اردو لکھ دی جاتی ہے ۔یو آئی ڈی اے آئی کے ایک سنیئر افسر نے رازداری کی شرط پر بتایاکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں جس میں ہندی، پنجابی، تامل ، تگلو، آسامی، راجستھانی، گجراتی ودیگر زبانوں میں بہت ہی کم غلطیاں ہیں، صرف اردو زبان میں زیادہ غلطیاں کی جارہی ہیں۔ اس بارے ایڈووکیٹ زاہدسرفراز ملک کا کہنا تھاکہ ”نجی کاری(Privatizaion)نے سارے نظام کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے، راشن کارڈ، شناختی کارڈ اور الیکشن کارڈ جوکہ اہم ترین دستاویز ہیں ، ان کا ٹھیکہ پرائیویٹ لوگوں کو دیاجاتاہے “۔ انہوں نے کہاکہ مذکورہ دستایزات جنہیں نام ، ولدیت، سکونت اور تاریخ پیدائش کے حوالہ سے سرکاری سطح پر اہمیت دی جاتی ہے، یہ کام ضلع وتحصیل انتظامیہ کے ذریعہ ہی سرکاری طور ہونا چاہئے تاکہ غلطیوں کی گنجائش کم رہے اور ساتھ ہی اس کی افادیت، اہمیت اور اعتباریت قائم ودائم رہے۔