دویندر رانا کا بھاجپا قیادت سے سوال روہنگیاکو جموں سے نکالنے پرنئی دہلی اور سرینگر کو کس نے روکا ہے؟

دویندر رانا کا بھاجپا قیادت سے سوال
روہنگیاکو جموں سے نکالنے پرنئی دہلی اور سرینگر کو کس نے روکا ہے؟
معاملہ کو دفعہ35Aکے ساتھ جوڑ کر تذ بذب نہ پیدا کیا جائے
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//نیشنل پینتھرز پارٹی، حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر بھگوا جموں نشین سیاسی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے بعد اب نیشنل کانفرنس نے بھی روہنگیا مسلمانوں سمیت تمام غیر ریاستی باشندوں کو باہر نکالنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی آئین ہند کی دفعہ35-Aکے تحت سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کی ڈوگرہ اور ’ڈگر دھرتی “ کو حاصل حقوق کے تحفظ کی وعدہ بند ہے۔ این سی نے متنبہ کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی مقصد کے لئے اس دفعہ کو ہٹانے کی کسی بھی کوشش کا جموں کے لوگ بلالحاظ ذات ، پات اور مذہب مقابلہ کریں گے۔ یہاں جموں میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا نے کہا”ڈوگرے آئین ہند کے تحت حاصل خصوصی درجہ کی بالادستی کے لئے لڑائی لڑیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو اُن تمام جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کی شناخت کر کے ، انہیںیہاں سے نکالاجائے گا جنہوں نے ڈوگروں کے احترام ، عزت وعظمت اور جائز حقوق پر ڈاکہ زنی کی ہے ،جواب بھارتیہ جنتا پارٹی کی مدد سے دفعہ35-Aہٹانے کی بات کر رہے ہیں “۔انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی پرمہاراجہ ہری سنگھ کی سیاسی دور اندیشی کی نفی کرنے کا الزام لگایا جنہوں (مہاراجہ)نے بقول ان کے یہاں کے لوگوں، خاص طور سے ڈوگروں کو بیرون ریاست کے بااثر تاجروں سے بچانے کے لئے 1927میں سٹیٹ سبجیکٹ قوانین لائے ۔اس کے باوجود کہ مفادات خصوصی رکھنے والے چند لوگوں کی غلطیوں سے یہاں پرغیرریاستی آکر آباد ہوگئے، وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ مہاراجہ کی دور اندیشی سے ڈوگروں کی شناخت، ورثہ اور سیاسی مفادات محفوظ رہے ہیں۔دویندر سنگھ رانا نے اس بات پرزور دیاکہ ”گذشتہ90برسوں کے برعکس عصرحاضر میں دفعہ35-Aکی اہمیت زیادہ ہے“۔ انہوں نے جموں کے خود ساختہ مسیحیٰ کہلانے والوںکو تنقید کا نشانہ بنایا جوکہ جموں کے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے پر تلے ہیں۔ رانا نے دفعہ35-Aکی بالادستی کی بات کرنے والوں کو قوم مخالف قراردینے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا”یہ خود ساختہ انتہائی قوم پرست ’ڈگر دھرتی‘کو قوم پرستی کے اعتبار سے کم آنک رہے ہیں جوکہ حقیقی معنوں میں بہادروںکی سرزمین ہے جنہوں نے ملک کی سلامتی ویکجہتی کے دفاع کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں“۔انہوں نے کہاکہ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آئینی حقوق کا تحفظ کریں تو ان پر انٹی نیشنل کا الزام نہیں لگایاجاسکتا۔ دویندر سنگھ رانا نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو ثابت کرے اور وضاحت کرے کہ کیسے دفعہ 35Aکو ہٹانا جموں کے لئے فائدہ مند رہے گا۔ انہوں نے کہا”اصل میں دفعہ35-Aکاہٹایاجاناسب سے زیادہ جموں کے لوگوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا، نوکریاں اور روزگار کے مواقعوں پر بیرون ریاست سے یہاں آباد لوگوں کا قبضہ ہوگا، کیونکہ جموں پڑوسی ریاستوں کے نزدیک ہے اور یہاں پر تجارت ودیگر کاموں کے لئے ماحول بھی سازگار ہے۔ مقامی جموں کے ڈوگرہ مہاجن، برہمن، راجپوت، کھتری، شیڈیول کاسٹ، ڈوگرہ مسلم، سکھ، عیسائی کے علاوہ دیگر طبقہ جات کے لوگ دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہ جائیں گے“۔ایک سوال کے جواب میں دویندر سنگھ رانا نے چند بھاجپا لیڈران کو روہنگیا کے معاملہ کو اچھال کر تفریقی حربے استعمال کرنے کے لئے متنبہ کرتے ہوئے کہا”بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز اور ریاست کے اندر اقتدار میں ہے ، پھربھی اس حساس معاملہ پر کوئی عملی پیش رفت نہیں کر رہی ، بجائے اس کے صرف عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے جذبات کو اُکسایاجارہاہے“۔انہوں نے سوال کیاکہ کون نئی دہلی اور سرینگر کو Foreign Nationals Actکے تحت روہنگیا کو یہاں سے نکالنے پر روک لگارہاہے۔ روہنگیا کو مرکز نے جموں میں بسایا ہے،نیشنل کانفرنس قیادت بار ہا یہ بات کہہ چکی ہے کہ غیر ملکی قانون کے تحت غیر قانونی روہنگیا کو یہاں سے نکالاجائے۔نیشنل کانفرنس صوبائی صدر کا مزید کہناتھا”دفعہ35-Aاور روہنگیا معاملہ کو آپس میں جوڑ کرتذبذب پیدا کرنے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا کمزور موقف ظاہر ہوتا ہے جوکہ وہ مہاراجہ کی طرف سے لائے گئے قانون کے ساتھ کر رہی ہے۔ اصل میں بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست کو آئین ہند کے تحت حاصل خصوصی پوزیشن کو ہٹانے کے معاملہ پر لوگوں کے سخت رد عمل سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ جموں کے ساتھ امتیازی سلوک بارے لوگوں میں پائی جارہی مایوسی بارے پوچھے جانے پر دویندر سنگھ رانا نے کہا کہ اس کا جواب بھارتیہ جنتا پارٹی کو دینا چاہئے،پارٹی کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ جموں کے لوگ حق بجانب اپنی دیرینہ خواہشات کی تکمیل نہ ہونے پر برہم ہیں کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں نظر اندز کیا ۔پچھلے چھ دہائیوں کے زائد عرصہ سے بھاجپاجموں کے ساتھ نا انصافی، نا انصافی کارونا روتی رہی ہے، اب جب اس سے موقع ملاتھاکہ وہ اس پر کچھ کرتی تواس نے یکسر لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور یہ ظاہر کردیا ہے کہ پارٹی کو حقیقی معنوں میں لوگوں کی مشکلات ومسائل سے کچھ لینا دینا نہیں۔پبلک سروس کمیشن کی طرف سے مختلف زمروں کے تحت پرکی جانے والی اسامیوں اور پروفیشنل کورسز میں جموں کے ساتھ مبینہ امتیاز بارے ایک سوال کے جواب میں دویندر سنگھ رانا نے کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کا ضرورجواب دینا چاہئے کہ اس تضادات پر کیا ایکشن لیاگیا اور قصورواروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔رانا نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مشورہ دیا ہے وہ جموں مخالف خاص طور سے دفعہ 35Aہٹانے پرزور دینے کے بجائے اپنا محاسبہ کرے۔