35Aسے متعلق بھاجپا کا پرو پیگنڈہ غلط ’کشمیر سے زیادہ جموں کا نقصان ‘

 

35Aسے متعلق بھاجپا کا پرو پیگنڈہ غلط
’کشمیر سے زیادہ جموں کا نقصان ‘
علیحدگی پسندآئین ہند کو نہیں مانتے، انہیں خصوصی پوزیشن سے کچھ لینا دینا نہیں:عمر عبد اللہ
پاکستان نے ہمیشہ جموں وکشمیر کو بھارت سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں// نیشنل کانفرنس کے کار گزار صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ35-A کے تعلق سے پارٹی جموں اور ملک کے لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے ۔ا ن کے مطابق پارٹی غلط پرو پیگنڈا کر رہی ہے کہ اس دفعہ کے ہٹنے سے جموں اور لداخ کے لوگوں کو فائدہ ملے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کشمیر سے پہلے جموں کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا ۔یہاں پارٹی کے دفتر شیرِِ کشمیر بھون میں این سی کارکنوں کے یک روزہ کنونشن کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران عمر عبداللہ نے کہاکہ جموں، کشمیر، لداخ، پیر پنجال، چناب خطوں کی الگ الگ تہذیب و ثقافت، رہن سہن اور خوبصورتی جموں وکشمیر کی وحدانیت کی پہچان ہے۔ دفعہ35-Aکے ہٹنے سے یہاں کی تہذیب وثقافت قصہ پارینہ ہوکر رہ جائے گی۔ذرائع ابلاغ کے سوالوں کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غلط پرو پیگنڈا کر کے لوگوں کو گمراہ کیاجارہاہے کہ کسی کو فائدہ ہونے والا نہیں۔ انہوں نے بھاجپا لیڈران سے کہاکہ انہیں تو جموں میں ہی رہنا ہے، لہٰذا ان لوگوں کے ساتھ، جنہوں نے انہیں اقتدار تک پہنچایا ، غلط بیانی کر کے ان سے دھوکہ نہ کریں۔ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہاکہ حریت اور علیحدگی پسند لیڈران کو دفعہ35-Aسے متعلق کوئی بیان بازی یا رائے زنی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ آئین ہند کو مانتے ہی نہیں۔ اگر اسی آئین میں سے ایک دفعہ ہٹ بھی جاتاہے تو انہیں کیافرق پڑتاہے۔عمر عبداللہ نے کہاکہ ایک طرف حریت کانفرنس آئین ہند پر یقین نہیں رکھتی تو دوسری اور اس معاملہ میں بھی ٹانگ اڑائی جارہی ہے۔ جی ایس ٹی معاملہ پر بھی حریت لیڈران نے جموں اور کشمیر کے تاجروں کو تقسیم کردیا اور اب بھی یہی ہورہاہے۔ یٰسین ملک کی طرف سے پاکستان کو یومِ آزادی کے موقع پر مبارک باد دینے اور ان سے کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے تعاون طلب کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ نے کہا” یہ کوئی نئی بات نہیں، وہ تو اس سے پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں“۔ انہوں نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس نے ہمیشہ جموں وکشمیر کو ہندوستان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ہیں۔ کبھی جنگ تو کبھی عسکریت پسندی کا سہارا لیاگیا۔عمر عبداللہ نے کہاکہ یہ غلط تاثر قائم کیاگیاہے کہ دفعہ370اور35Aکی وجہ سے یہاں پر صنعتی شعبہ کو پنپنے کا موقع نہ ملا جوکہ سراسر غلط ہے۔ صنعتی شعبہ کوفروغ نہ ملنے کی اور کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی پرامن ماحول کا نہ ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ 90کی دہائی سے قبل یہاں صنعتی شعبہ کافی ترقی پذیر تھا۔مقامی طور پر خام مال کی عدم دستیابی اور تیار کئے جانے والے سامان کی ٹرانسپورٹیشن و مارکیٹنگ کچھ دیگر وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جو یہ سوچتے ہیں کہ خصوصی پوزیشن کو ختم کر کے یہاں پر انل امبانی، ٹاٹا، برلاجیسے بڑے صنعتکار سرمایہ کاری کریں گے تو وہ ان کی غلط فہمی ہے۔ خصوصی پوزیشن کا صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری سے کچھ لینا دینا نہیںلہٰذا لوگوں کو بیوقوف بنانے کا عمل نہ کیاجائے ۔ اس سے قبل صوبائی ، ضلع و بلاک سطح اور مختلف اکائیوں کے سنیئر عہدہ داران کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے این سی کارگزار صدر عمرعبداللہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی پرآئین ہند کی دفعہ35-Aمعاملہ پر جموں وکشمیر ریاست کی علاقائی تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہاکہ اگر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے دی گئی یقین دہائی صحیح تھی تو پھر کیوںعدالت عظمیٰ میں مرکزی سرکار کی طرف سے دفعہ35-Aکے دفاع میں جوابی حلف نامہ دائر نہیں کیاگیا۔ عبداللہ نے کہا ”اس آرٹیکل کا دفاع کرنے کے بجائے اٹارنی جنرل نے اس پر بحث کرنے کی بات کی ہے“۔انہوں نے پوچھا کہ کیونکہ مرکزی سرکار جموںوکشمیر کی عوام کی خواہشات کے مطابق اور بطور آئین ہند کے محافظ کے باضابطہ طور پر عدالت عظمیٰ میں دفعہ35-Aکا دفاع کرتی؟۔ کارگذار صدر نے اس حساس اور سنجیدہ معاملہ پر پی ڈی پی،بی جے پی سرکار کے رد عمل اور سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ” جو جوابی حلف نامہ دائر کیا ہے ، محض 11صفحات پر مشتمل ہے، جس سے عیاں ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔ اس حلف نامہ میں بھی حکومت نے کوئی ٹھوس موقف اختیار نہیں کیا بلکہ عارضی رویہ اپنایاگیاہے“۔ انہوں نے کہاکہ پہلا حلف نامہ70صفحات پر مشتمل تھا لیکن ریاستی حکومت نے اس کو عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کی بجائے مختصر علامتی جواب دیا جس سے پی ڈی پی، بی جے پی سرکار کے رول پر سوال اٹھتا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا”یہ سب ایک منظم سازش کے تحت جموں وکشمیر کے خصوصی درجہ اور حقوق کو چھینے کے لئے کیاجارہاہے“۔ انہوں نے پارٹی عہدہ داروں اور کارکنوں پرزور دیاکہ وہ متحدہوکر اس سازش کے خلاف لڑیں اور ریاست کو حاصل آئینی ضمانت کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑچھاڑ نہ کرنے دیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی بدنیتی پر سوال اٹھاتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ جب بھی پارٹی کو جموں وکشمیر مخالف حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے تو یہ پھر ایک نئے ناپاک ایجنڈاکے ساتھ سامنے آجاتی ہے ۔انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیاکہ ملک کی دیگر ریاستوں بشمول ہماچل پردیش، شمال مشرقی ریاستوں اور لکش دیپ میں بھی ملکیتی اراضی اور شہریت سے متعلق لگ بھگ اسی طرح کے قوانین ہیںاور وہاں مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہوتی ہے لیکن جموں وکشمیر ریاست کے لوگوں کو حاصل حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی درجہ عرصہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور یہ سال 2014کے انتخابات میں ان کی منصوبہ بندی کا حصہ بھی تھا لیکن ایک بار وہ جب اقتدار میں آئے تو بھاجپا کو احساس ہوا کہ ان کے ارداے سیاسی طور پورے ہونے والے نہیں۔اس لئے انہوں نے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ عدالتوں کا سہارا لیکردفعہ 35-A کو چیلنج کیا۔ انہوں نے کہاکہ حال ہی میں جموں وکشمیر میں جی ایس ٹی قانون کا نفاذبھی ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کو کھوکھلا کرنے کی کوشش تھی جس کے تحت حاصل محصولات حقوق سے بھی محروم کیاگیا۔ دفعہ35-Aہٹائے جانے سے ہونے والے سنگین نتائج سے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ وادی کشمیر سے پہلے جموں میں اس کا زیادہ نقصان ہوگا۔ نہ صرف لوگوں سے روزگار چھن جائے گا بلکہ تجارتی شعبہ میں بھی انہیں بیرون ریاست کے تاجروں کے زیر تسلط ہوکر رہنا پڑے گا جب کہ مقامی زمین مالکان بھی اپنی زمینوں سے محروم ہو جائیں گے۔انہوں نے جموں کے لوگوں سے کہاکہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے متحد ہوں۔انہوں نے کہااگر دفعہ35-Aہٹایاجاتاہے تو ہم پھر محرومیت، ظلم وتشدداور ذلت کے دور میں چلے جائیں جہاں سے شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے لوگوں کو باہر نکالاتھا۔ انہوں نے 1927میں مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے لائے گئے سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کے وسیع ترمفادات کی خاطر یہ قوانین لائے تھے کیونکہ انہیںخدشہ تھاکہ غیر ریاستی لوگوں کے یہاں آنے سے مقامی لوگوں کی حق تلفی ہوگی۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ نیشنل کانفرنس ریاست کے تینوں خطوں میں دفعہ35Aکے حق میں جدوجہد جاری رکھے گی اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا جی توڑ مقابلہ کیاجائے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ نیشنل کانفرنس عدالت عظمیٰ میں دفعہ35Aکے حق میں قانونی لڑائی لڑنے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے اور کل ہونے والی میٹنگ میں اس پر غوروخوض کیاجائے گا۔ کنونشن میں سابقہ وزیر خزانہ عبدلرحیم راتھر، صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا، اجے کمار سدھوترہ، سرجیت سنگھ سلاتھیہ، ٹھاکر کشمیرا سنگھ، خالد نجیب سہروردی، سید مشتاق بخاری اور دیگر رہنماﺅں نے بھی خطاب کیا اور جموں، لداخ اور کشمیر کے لوگوں کو بلالحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل اس نازک مرحلہ پر متحد ہونے کو کہا۔

”اگر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے دی گئی یقین دہانی صحیح تھی تو پھر کیوںعدالت عظمیٰ میں مرکزی سرکار کی طرف سے دفعہ35-Aکے دفاع میں جوابی حلف نامہ دائر نہیں کیاگیا“