جموںخطہ میں رکھشا بندھن کی دھوم بہنوں نے بھائیوں کی کلائی پر دھاگہ باندھ کر حفاظت کا عہد و پیمان لیا

 

جموںخطہ میں رکھشا بندھن کی دھوم
بہنوں نے بھائیوں کی کلائی پر دھاگہ باندھ کر حفاظت کا عہد و پیمان لیا
مندروں میں پوجاپاٹھ کا اہتمام ، نوجوانوں و بچوں نے پتنگ بازی کا لطف اٹھایا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//بھائی بہن کے پیار کے مظہر تہوار رکھشا بندھن ریاست بالخصوص خطہ جموں میں روایتی جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا۔جموں کے بازاروں میں رکھشا بندھن کے سلسلہ میں کافی گہما گہمی رہی اور خواتین اپنے بھائیوں کی کلائیوں پر باندھنے کے لئے من پسند راکھی کی خریدوفروخت میں مصروف تھیں۔ صبح سے ہی ہر عمر کی خواتین و لڑکیاں زرق برق کپڑوں میں ملبوس دو پہیہ گاڑیوں، کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ پرشہر کے مختلف علاقوں میں اپنے بھائی کی رہائش گاہوں پر پہنچیں جبکہ کچھ بھائی بھی بہنوں کے ہاں راکھی بندھوانے کیلئے پہنچے۔ ہرسال اگست ماہ میں بکرمی سال کے سا ون ماہ کی پورنماشی پر یہ تہوار صدیوں سے منایا جا رہا ہے۔ اس دن بہنیں اپنے بھائی کی کلائی پر راکھی باندھ کر اس کے ماتھے پر تلک لگاتی ہیں اور اس کی طویل عمری کی دعا کر تی ہیں۔بھائی اس موقع پر اپنی بہنوں کو تحائف دیتا ہے اور ان کی محافظت کا عزم دوہراتا ہے۔ اگر چہ رکھشا بندھن کے پیش نظر شہر میں بیشتر دکانیں بند رہیں تاہم راکھی، پتنگ ، ڈور اور مٹھائی کی دکانیں کھلی رہیں اور دکانداروں نے خوب کمائی کی۔ شہر کی سڑکوں پر بھی کافی رش رہا اور ہر کوئی جلدی جلدی اپنے بھائی یابہن کے پاس پہنچنے کیلئے بیتاب نظر آرہا تھا۔دریں اثناءشہر کے مندروں میں بھی کافی چہل پہل رہی جن کی خصوصی طور تزئین و سجاوٹ کی گئی تھی جہاں پر خصوصی دعاو¿ں کااہتمام کیا گیا۔ رکھشا بندھن کے موقع پر جموں اور مضافاتی قصبوں میں پتنگ بازی بھی کی جاتی ہے جس سے اس تہوار کی اہمیت اور بھی دوگنی ہوگئی ہے۔ شہر کی بیشتر جگہوں پر مرد اور نوجواں لڑکے اپنے دوستوں کیساتھ مکانوں کی چھتوں او ر کھلے میدانوں میں پتنگ اڑاتے دیکھے گئے۔ کئی جگہوں پر لوڈ اسپیکروں پر سنگیت بجاکر بھی پتنگ باز ی کا لطف اٹھایا گیا۔ واضح رہے کہ پتنگ بازی میں رسیاں کھینچے اور پتنگ کو سب سے زیادہ او نچا لے جانے کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لینے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے۔اسی کے ساتھ ایک مہینہ سے چلی آرہی سالانہ امرناتھ یاترا بھی اختتام کو پہنچی۔مورخین کے مطابق روایتی ہندو تہوار رکھشا بندھن کی تاریخ6000سال قبل ہے جب آرین تہذیب کا آغاز ہوا۔ البتہ بھارت کے مختلف حصوںمیں اس کومنانے کا طریقہ علیحدہ ہے نیز بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہیں۔رکھشا بندھن کے حوالہ سے کئی ایک تاریخی شواہد ہیں ان میں مغل شہنشاہ ہمایوں اور رانی کرنا وتی کا قصہ کافی مشہور ہے۔ مورخین کے مطابق دور وسطیٰ میں جب راجستھان کی ریاست چتوڑ کا مہاراجہ مرگیا تو گجرات کے سلطان بہادر شاہ نے اس ریاست کو اپنی عمل داری میں شامل کر نے کی غرض سے حملہ کر دیا۔مہارجہ چتوڑ کی بیوہ رانی کر نا وتی نے دفاع کی کوئی صورت نہ دیکھی تو اس نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو راکھی ارسال کی۔ اس وقت ہمایوں شیر شاہ سوری کی فوجوں کے ساتھ نبرد آزما تھا اور اپنیبقا کی جنگ لڑ رہا تھا لیکن جذبہ خیر سگالی کے تحت کوئی وقت ضائع کئے بنا اس نے رانی کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجی۔ اس کے علاوہ سکندر اعظم اور بادشاہ پورس، کرشن جی اور دروپدی ،بادشاہ بالی اور دیوی لکشمی وغیرہ کی کہانیاں رکھشابندھن تہوار کے چند اہم ترین تاریخی شواہد ہیں۔تریکوٹہ نگر شیو مندر میں ساون ماہ کے آخری سوموار کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب کے دوران خواتین نے بھگوان کرشن کو راکھیاں باندھیں۔دریں اثناءجموں خطہ میں کئی ایک مقامات پر لڑکیوں نے فوجی اہلکاروں کو راکھی باندھی جو اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور سرحدوں کی حفاظت کے سلسلہ میں مامور ہیں۔ دیوان دیوی ہائر سکینڈری سکول جموں کی سکولی بچیوں نے اساتذہ کے ہمراہ سانبہ سرحد پر دورہ اور وہاں پر ہندوستان پاکستان سرحدپر تعینات بی ایس ایف جوانوں کی کلائیوں پر راکھیاں باندھیں۔اس دوران بی ایس ایف جوان کافی جذباتی دکھائی دیئے۔