چراغ تلے اندھیرا

چراغ تلے اندھیرا
اصلاحات کی عدم موجودگی سے ریاست میں بجلی خسارہ4650کروڑ
بجلی کی تقسیم کاری اور ترسیل کے دوران ہونے والے نقصان میں بھی ریاست سرفہرست
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ریاست جہاں 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، میں اس وقت تیار ہورہی بجلی کی ترسیل وتقسیم کاری کا بہت زیادہ نقصان ہورہاہے بلکہ بجلی کرایہ کی وصولی بہت کم ہے۔ بجلی اصلاحات کی عدم موجودگی کی وجہ سے پانچ برسوں میںبجلی کریہ خسارہ133%تک پہنچ چکا ہے۔ سال2011-12میں بجلی کرایہ کا خسارہ1993کروڑ تھا جوکہ اب سال 2015-16تک4650کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ 4جولائی2017کو گرمائی راجدھانی سرینگر میں منعقدہ خصوصی اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان زیریں میں پیش کی گئی CAGکمپٹرولر آڈیٹر جنرل رپورٹ میں جو انکشافات کئے گئے ہیں، وہ تشویش کن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سال2015-16کے دوران بجلی کرایہ وصولی کا جوہدف مقرر کیاگیاتھا، وہ حاصل نہ کیاجاسکا اور 1,503کروڑ روپے کرایہ وصول نہ ہوسکا۔ 31مارچ2016تک کی کیگ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ جتنی بجلی خریدتے ہیں، اس کے مقابلہ بجلی کرایہ کی وصولی صرف24.10فیصد ہے نتیجہ کے طور پرسال2015-16کے دوران 4,650کروڑ کا خسارہ ہوا۔ سال2014-15میں جمع کردہ بجلی کرایہ کا خسارہ2,976کروڑ، سال 2013-14میں2,205کروڑ اور 2012-13میں2,281کروڑ رہا۔صارفین کو بجلی کی فراہمی کا ذمہ محکمہ پی ڈی ڈی کے پاس ہے جس کے پاس بجلی اصلاحات نہ ہونے سے مقررہ اہداف حاصل نہیں ہوپارہے۔بجلی خریداری اخراجات اور صارفین کی اس سے وصولیابی میں زمین آسمان کا فرق نظر آرہاہے جس سے خزانہ عامرہ پر بھاری بوجھ پڑتاہے اور دیگر شعبہ جات کی تعمیر وترقی متاثر ہورہی ہے کیونکہ بجلی ایک اہم ترین ضرورت ہے جس کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے دیگر شعبہ جات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتاہے۔جموںوکشمیرریاست میںسرکاری محکمہ جات، کارپوریشن اور نیم سرکاری دفاتروں میں بھی بے دریغ بجلی کا استعمال ہوتا ہے اور اربوں روپے بطور بجلی کرایہ واجب الادا ہے جس کی حصولی کے لئے سرکار کی طرف سے موثر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔ ریاست کے بیشتر گاو¿ں ودیہی علاقہ جات ایسے ہیں جہاں پر یا تربجلی ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر بیشترصارفین سے فکس ریٹ کے حساب سے ماہانہ بجلی کرایہ باقاعدگی سے وصول کیاجارہاہے۔ اس کے برعکس قصبہ جات ،شہروں اور پوش علاقوں میں رہنے والے لوگ، جن میں سیاسی رہنما، حکمران، بیروکریٹ، اعلیٰ انتظامی افسران شامل ہیں، نے بھی باضابطہ بجلی کنکشن نہ لئے ہیں اور غیر قانونی طور بجلی کا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ دیہات میں لوگ بمشکل ایک یا دو بلب جلاتے ہیں، اس کے برعکس قصبہ جات وشہروں میں اے سی، پنکھے، فریج، کولر، کپڑے دھونے والی مشین، بجلی پرچلنے والے چولہے، ٹیلی ویژن، پریس ، حتیٰ کہ بیشتر کام بجلی پرہوتاہے جس پر ماہانہ اوسطاً7سے10ہزار روپے کی بجلی کھپت ہوتی ہے لیکن اس کے بدلے میں یہ لوگ صرف چند سوروپے بطور کرایہ دیکر محکمہ کی آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں۔یاد رہے کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کاری کے دوران ضائع ہونے والی ضائع ہونے والی بجلی میں بھی جموں وکشمیر کا نمایاں مقام ہے جہاں پر 50سے59فیصد کے درمیان بجلی صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس کا رونا ہر کوئی سرکار روتی آرہی ہے لیکن اس کا سد باب آج تک کوئی نکال نہیں پایا۔