جموں میں سانحہ 1947کے چشم دید وسرکردہ ماہر قانون شبیر حسین سلاریہ نہ رہے

جموں میں سانحہ 1947کے چشم دید وسرکردہ ماہر قانون شبیر حسین سلاریہ نہ رہے
وکلاءکا اظہار افسوس ، نمازہ جنازہ 21جولائی کو گوجر نگر قبرستان میں ادا کی جائے گی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے دیرینہ ممبر ،دانشور، مفکر،سابقہ رکن پارلیمان، سرکردہ ماہرقانون اور بزرگ وکیل چوہدری شبیر حسین سلاریہ کا جمعرات کو بعد دوپہر3بجے انتقال ہوگیا۔وہ83برس کے تھے۔ مرحوم1947کو تقسیم برصغیر کے دوران جموں میں مسلم کش فسادات کے چشم دید گواہ تھے جس وقت ان کی عمرغالباً11-12برس تھی۔اس سانحہ کے دوران چوہدری شبیرسلاریہ مضروب بھی ہوگئے تھے اور ان کا آدھابازو کٹ جانے کے سبب آج بھی ٹیڑھا تھا۔اس سے قبل وہ دلی کے ایسکارٹس اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ 25دستمبر1934کو پیدا ہوئے اور پرنس آف ویلز کالج سے گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر کے سال 1957میں بطور وکیل کام کرنا شروع کیا۔ بعد میں انہیں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کا وکیل مقرر کیاگیا۔ انہوں نے سرینگر میں کام شروع کرنے کے بعد1958میں راجوری کا رخ کیا جبکہ سال 1976میں انہوں نے جموں میںبطور وکیل کام کرنا شروع کیا۔ ان کو1980میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے ریکارڈ سیکشن میں بطور وکیل تعینات کیاگیا۔1983میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے انہیں جموں وکشمیر میں بطور ایڈوکیٹ جنرل تعینات کیا۔ وہ 1987تک ایڈوکیٹ جنرل کے عہدہ پر فائض رہے۔ مرحوم نیشنل کانفرنس کے سرکردہ لیڈر بھی رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پرانہوں نے پارلیمنٹ کے انتخابات بھی لڑے تھے اور بعد میں پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا کا رکن بنایا۔1984میں انہوں نے پونچھ پارلیمانی نشست سے بطور نیشنل کانفرنس امیدوار انتخاب لڑا اور 1لاکھ44ہزار ووٹ حاصل کئے۔ وہ 27ستمبر1989سے لیکر21اکتوبر1992تک رکن پارلیمان رہے۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔ صوبہ جموں سے وہ اس عہدہ پر فائز ہونے والے پہلے مسلم ایڈوکیٹ تھے۔ انہیں1999میں فاروق عبداللہ نے ایک مرتبہ پھر سے بطور ایڈوکیٹ جنرل تعینات کیا۔ مرحوم کے بارے میں یہ با ت عوامی حلقوں میں کافی مشہور ہے کہ وہ 11برس کی عمر میں ہی 1947کے جموں غدر کے عینی شاہد تھے۔ اس وقت ان کے خاندان کے 35افراد کا خون بہایاگیا تھا۔ وہ ایک انسان دوست شخص تھے اور سماج کے سبھی حلقوں میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اہل خانہ کے مطابق چوہدری شبیر سلاریہ نے اپنی رہائش گاہ واقع دلپیتاں محلہ جموں میں آخری سانس لی۔ ان کی نمازہ جنازہ21جولائی 2017کو بعددوپہر3:30بجے قبرستان گوجر نگر جموں میں ادا کی جائے گی۔۔ عمر رسیدہ اور بزرگ ہونے کے باوجود وہ با قاعدہ عدالت جاتے تھے اور آج بھی زور وشور کے ساتھ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔ جانی پور کورٹ کمپلیکس کے کمرہ نمبر2کے داخلی دروازہ کے عین ساتھ وہ بیٹھتے تھے۔وہاں سے اندر آنے والے ہر چھوٹے، بڑے وکیل سے وہ خندہ پیشانی سے ملاقات کرتے، انہیں صلاح ومشورہ دیتے تھے۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے وہ سب سے بزرگ وکیل تھے، جوکہ آخری دم تک وکالت کرتے رہے۔ انہیں کئی مرتبہ دیگر وکلاءکہتے تھے کہ وہ اب گھر پر آرام کریں جس پر وہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہتے ”اگر گھر پر آرام کرتا توکب کا ختم ہوگیا ہوتا، کورٹ میں آنے سے مجھے طاقت ملتی ہے، میں یہاں اب پیسے کمانے نہیں آتا، بلکہ یہاں آنے سے میں ذہنی وجسمانی طور سکون وتندرستی محسوس کرتا ہوں“۔ ایڈوکیٹ شبیر حسین سلاریہ جموں وکشمیر کی سیاست وتاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ مرحوم کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ سابقہ ایم ایل اے زبیدہ سلاریہ، فرزند آئی جی پی محمد سلیمان سلاریہ(آئی پی ایس)، ایڈوکیٹ محمد عثمان سلاریہ، ڈاکٹر ہارون سلاریہ، دختر ڈاکٹر اختر النسا کے علاوہ ڈاکٹر سلیم اور حمیرہ مریم ہیں۔ ایڈوکیٹ چوہدری شبیر حسین سلاریہ کی وفات پر ریاست بھر کی سیاسی، سماجی، مذہبی، تجارتی تنظیموں خاص طور سے وکلاءبرادری نے گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے21جولائی کو تمام عدالتوں میں کام کاج معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بار صدر بی ایس سلاتھیہ نے بتایاکہ سنیئر ایڈوکیٹ اور سابقہ ایڈوکیٹ جنرل شبیر حسین سلاریہ کی اچانک وفات پر ، ہائی کورٹ، ماتحت عدالتوں اور ٹریبونل میں 21جولائی کو کام کاج معطل رہے گا۔