ؒخاوند بری، والدین نسبتی کو 10سال قیدبامشقت کی سزا وجرمانہ

سسرال میں ظلم وستم کا شکار بہو کی خودکشی معاملہ
ؒخاوند بری، والدین نسبتی کو 10سال قیدبامشقت کی سزا وجرمانہ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//سرحدی ضلع پونچھ کے سیشن کورٹ نے خود کشی کے 11سالہ پرانے کیس کو حل کرتے ہوئے اس میں ساس اور سسر کو بہو کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں10برس کی قیدبامشقت اور5/5ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ پرنسپل سیشن جج پونچھ نے 134صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں مستغیثہ (متوفیہ)کے خاوند کو بری جبکہ اس کے والدین اور متوفیہ کے والدینِ نسبتی کو قیدبامشقت کی سزا سناتے ہوئے انہیں سزا کاٹنے کے لئے سینٹرل جیل جموں منتقل کرنے کا حکم صادر کیا۔ پولیس استغاثہ کے مطابق 17اور18اگست2006کی درمیانی شب کو ساس ، سسر اور دیور کے ظلم وستم اور تشدد سے پریشان ہوکر متوفیہ نے زہریلی شہ نگل کر خود کشی کرلی۔ معاملہ کی نسبت پولیس تھانہ گرسائی میں زیر علت نمبر46/2006زیر دفعات 306,498 A اور 201ضابطہ فوجداری مقدمہ درج کیاگیاتھا۔ سرکار بنام اختر حسین شاہ ودیگران استغاثہ کے مطابق سسرال میں شادی کے 7سالوں کے اندرمتوفیہ کی غیر قدرتی موت ہوگئی۔ ایف ایس ایل رپورٹ نے تصدیق کی ہے کہ موت زہر خوردنی سے ہوئی ہے۔ متعلقہ گواہان نے بھی پولیس اور عدالت کے سامنے دئے گئے بیانات میں کہا ہے کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی متوفیہ کوہراساں واس پر ظلم وستم کرنا شروع کردیاگیاتھا۔ نتیجہ کے طور پر تنگ آکر متوفیہ نے7اور18اگست 2006کی درمیانی شب خودکشی کر لی۔پولیس نے اپنے کیس میں یہ کہا ہے کہ خاوند(ملزم)17اگست2006کو ڈیوٹی سے شام گھرلوٹا ، والدہ ، والد اور بھائی کے اُکسانے واشتعال انگیزی پر اس نے اپنی اہلیہ کی مارپیٹ کی ۔ اس ظلم وستم سے پریشان موصوفہ نے خود کشی کر لی لیکن تمام گواہان کے بیانات کے بعد عدالت میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اہلیہ کے خلاف ظلم میں خاوند کا کوئی رول نہیں۔ایف ایس ایل اور پوسٹ مارٹم رپورٹ نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ موت زہر خوردنی سے ہوئی ہے اور متوفیہ کے جسم پر اندرونی یا بیرونی کوئی زخمی نہ تھا۔ یہ بات ثابت نہ ہوئی کہ اُس رات خاوند ڈیوٹی سے غیر حاضر تھا۔ البتہ گواہان سے اس بات کی توثیق ہوئی ہے کہ متوفیہ کو ہرطرح کے مظالم کا شکار بنایا گیا ۔ خصوی طور پر ساس کی طرف سے ، جوکہ پہلے ہی ،اِس شادی سے ناخوش تھی۔ ساس کے ظلم وستم میں اس کے خاوند ومتوفیہ کے سسر اور بیٹے (دیور)نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ خاوند اکثر گھر سے باہر رہتاتھا کیونکہ وہ محکمہ پولیس میں ملازم تھا۔ حتیٰ کہ گواہان کے مطابق متوفیہ اپنے والدین کے گھر سکون محسوس کرتی تھی جہاں وہ اکثر ظلم وستم سے بچ جاتی یا خاوند کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔ جب بھی وہ خاوند کے ساتھ اس کی جائے تعیناتی پوسٹنگ پر ہوتی تھی تو وہ اطمینان محسوس کرتی تھی ۔اُس کو خاوند کی طرف سے کسی قسم کے ہراساں نہ کئے جانے کی شکایت نہ تھی جس کی گواہان نے توثیق کی ۔ متوفیہ کی والدہ، والد اور بھائیوں نے بھی کورٹ میں یہی بات بتائی۔فاضل عدالت نے گواہان کے بیانات وثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پایاکہ متوفیہ کو جسمانی وذہنی طور تشدد کا شکار بنایاگیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ جس دن متوفیہ نے خودکشی کی ،اس رات اس کا خاوند یاترا ڈیوٹی پر تھا اور یہ بات ثابت نہیںہوپائی ہے کہ وہ گھر آیا ، اہلیہ کو ٹارچر کیا اور اس نے خودکشی کی۔ متوفیہ کی دختر جوکہ اس وقت 6سال کی تھی ، نے اور دیگران نے خاوند کو بتایاکہ لیکن اس کو پولیس نے گواہ نہیں بنایاہے۔ بعد ازاں وہ عدالت میں دفاعی گواہ کے طور پیش ہوئی اور اپنے والد سے متعلق استغاثہ کے موقف کو غلط قرار دیا۔ متوفیہ کی شکایت تھی کہ اس کو گھاس کاٹنے اور مال مویشیوں کاگوبر اٹھانے پر مجبور کیاجارہاہے۔ اس کی ماں نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس کی بیٹی پر ہر طرح ٹارچر کیاگیا اور وہ اس کو واپس اپنے سسرال بھیجتے رہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہنا چاہتی تھی۔ جب آخری مرتبہ خاوند اس کو اپنی پوسٹنگ کی جگہ لے گیا تو اس نے واپس اپنے سسرال جانے سے صاف انکار کر دیااور کہا کہ اس کو وہاں مار دیاجائے گا۔ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ زچگی کے بعد متوفیہ کو ساس نے کھانا تک نہ دیا اور اس کو باتھ روم میں بند رکھاکرتی تھی،ہر کوئی اس کو نفرت وحقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ان تمام حالات وواقعات سے جرم زیردفعہ498-Aفوجداری ثابت ہوتاہے۔ فاضل عدالت نے 134صفحات پر مشتمل تفصیلی Judgementمیںخاوند کوالزامات سے بری کر دیا۔ جبکہ متوفیہ کے ساس سسر(والدین نسبتی)کومجرم قرار دیتے ہوئے 306کے تحت6سال قید بامشقت ، دفعہ498-Aکے تحت 2سال اور دفعہ201ضابطہ فوجداری کے تحت2سال کے علاوہ دونوں کو پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ تمام سزائیں بیک وقت ہونگیں۔ 134صفحات پر مشتمل فیصلہ پر پرنسپل سیشن جج طاہر خرشید رینہ نے کہاکہ ساس سسر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے گھر پر بہو کو لایاہے ، نہ کہ کسی بندھوا مزدور کو۔ وہ انسان ہے اور ہر طرح کی عزت و عظمت اور آسائش کی حقدار ہے۔ والدین کو اپنی مشکلات بتانے اور دیگر گھریلو ضروریات بارے بتانے کا حقص صرف بیٹے پرہے ، نہ کہ بہو پر۔اگر وہ کوئی کام کرتی ہے تو وہ صرف ازدواجی تعلقات کی عزت واحترام میں ہے ، نہ کہ بندھوا مزدور کے طور پر، جس کے لئے اس کو ہراساں وپریشان کیاجائے۔ بہو کو بندھوا مزدور تصور کئے جانے سے ساس سسر کا ظلم وستم وتشدد کا مسئلہ موجودہ سماج کے لئے ایک ناسور بن گیا ہے۔ پرنسپل سیشن جج نے حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں رسول ﷺنے کہاہے کہ ’ماں کے قدموں میں جنت ہے ‘لیکن جب یہی ماں بہو کو گھر لاتی ہے ، اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کو جنت بنائے رکھے ، اپنے کنبہ میں شامل ہونے والے نئے فرد کو پیار ومحبت دے اور اس کو اپنی بیٹی کی طرح دیکھے ۔ ملزمین کے وکیل نے فاضل کورٹ سے استدعا کی کہ اچھے رویہ خاص طور سے خاتون ملزمہ جس کی عمر60سال سے زائد ہے ،کو ضمانت پر رہاکیاجائے جس کو کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ایسے ملزمین جوکہ خاتون کے خلاف جرائم میں مجرم ٹھہرائے گئے ہوں کو کوئی ضمانت پر رہانہیں کیاجاسکتا ۔جہاں تک خاتون ملزمہ کا تعلق ہے ، کہ اس کااپنی بہو کو ٹارچر ار ہراساں کرنے میں زیادہ کردار نبھایا لہٰذا وہ اس سے رعایت نہیں برتی جاسکتی۔ پرنسپل سیشن کورٹ پونچھ نے 11سالہ اس پرانے مقدمہ پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے بہوکو خودکشی کرنے کے لئے اُکسانے پر والدینِ نسبتی کو مجرم قرار دیتے ہوئے قیدبامشقت کی سزاسنائی اور انہیں سینٹرل جیل جموں بھیجنے کا حکم صادر کیا۔