GSTیکم جولائی سے دیگر ریاستوں میں نافذ العمل مگر ریاست میں امکانات معدوم کل جماعتی کمیٹی کے لئے 30جون سے قبل قابلِ قبول تجاویز پیش کرنا کافی مشکل

نیوز ڈیسک
جموں // جنرل سیلز ٹیکس (GST) نظام یا ” ایک بھارت ،ایک ٹیکس “ اگرچہ دوسری ریاستوں میں یکم جولائی سے نافذ العمل ہو رہا ہے لیکن جموں و کشمیر میں اس کے امکانات معدوم ہیں ۔حالانکہ اس ضمن میں ریاستی حکومت نے تجارتی انجمنوں ، دیگر حصہ داروں اور حزبِ اختلاف جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کی تھی اور اس کے بعد یہ تاثر دیا تھا کہ وسیع اتفاق رائے قائم ہو رہا ہے لیکن درحقیقت ایسا کچھ بھی نہ تھا ۔ حزبِ اختلاف نے پہلے بھی اور کل جماعتی مشاورت کے روز بھی بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جس میں با لخصوص ریاست کی مالی خود مختیاری اور خصوصی درجہ کو زک پہنچنے سے متعلق تھا ۔ ہفتہ کے روز اس سلسلہ میں طلب کیا گیا قانون سازیہ کا خصوصی اجلاس اگرچہ اپوزیشن کی طرف سے شہری ہلاکتوں ، طلبا پر پیلیٹ گن کے استعمال اور زیادتیوں کے خلاف حزبِ اختلاف کی وجہ سے ایک دن میں ہی غیر معینہ عرصہ کے لئے ملتوی کر دیا گیا لیکن حقیقت اس سے کچھ آگے ہے ۔در اصل حزبِ اختلاف کے علاوہ خود حکمران جماعت کی ایک اکائی کے کچھ ممبران کو جی ایس ٹی قانون کے ریاست پر اطلاق سے متعلق شکوک ہیں جبکہ ور وادی کی تجارتی انجمنیں پہلے ہی اپنی مخالفت واضح کر چکی ہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے ہڑتال بھی کی تھی ۔ رےاستی سرکار نے جی اےس ٹی کے اطلاق کو ممکن بنانے کےلئے مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے سابق نائب وزےر اعلیٰ اور پی ڈی پی کے سےنئر لےڈر و ماہر قانون مظفر حسےن بےگ کی سربراہی مےں اےک 10 رکنی کل جماعتی کمےٹی تشکےل دی ہے جس مےں وزےر خزانہ ڈاکٹر حسےب درابو اور وزےر قانون اےڈوکےٹ عبدالحق خان کے علاوہ سابق وزےر خزانہ عبدالرحےم راتھر ، سابق سےنئر وزےر غلام حسن مےر ، سابق وزےر حکےم محمد ےاسےن ، سی پی آئی اےم کے سےنئر لےڈر محمد ےوسف تارےگامی ، بی جے پی سے وابستہ وزےر پرےا سےٹھی،کانگریس کے سینئرلیڈراعجازاحمدخان اور اےن پی پی سے وابستہ سابق وزےر قانون ہرش دےو سنگھ شامل ہےں ۔ اس کمیٹی کو 30جون تک کوئی درمیانہ راستہ نکالنا ہے جو فی الوقت کافی مشکل کام دکھائی دیتا ہے ۔ واضح رہے کہ حزب اختلاف کے علاوہ کشمےر سے تعلق رکھنے والے تاجران کی تمام تنظےموں نے رےاست جموںوکشمےر مےں جی اےس ٹی کو موجودہ شکل میں نافذ کرنے پر جو اعتراض کیا ہے وہ آئین ہند کی 101 وےں ترمےم سے متعلق ہے جس کے براہِ راست اطلاق سے رےاست کی خصوصی پوزےشن اور مالی خود مختاری کو زک پہنچے گا ۔حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ جہاں دیگر ریاستیں ٹیکس لگانے کے لئے آئین ہند سے اختیار حاصل کر تی ہیں ، جموں و کشمیر خود اپنے آئین سے یہ اختیارات حاصل کر تا ہے ۔ اس لئے مالی خود مختاری پر کسی سمجھوتہ کا سوال ہی نہیں۔ لیکن حزبِ اختلاف اور تجارتی انجمنیں ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں۔ اب تک ا ٓئین ہند میں 101 ترامےم کی جاچکی ہےں جن مےں سے 46 رےاست جموںوکشمےر مےں صدارتی احکامات کے ذریعہ لاگو ہو چکی ہیں اور ےہ پہلی مرتبہ ہے جب کسی مرکزی قانون کو رےاست مےں نافذ کرنے سے قبل اسمبلی کو اعتماد مےں لےنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حکومت نے سابق نائب وزیراعلیٰ مظفرحسین بیگ کی سربراہی میں کل جماعتی کمیٹی کویہ اختیاردیاگیاہے کہ وہ ریاست میں جی ایس ٹی کولاگوکرنے کیلئے اپنی تجویزاورسفارش سرکارکودے سکتی ہے ۔ تاہم سےاسی اور آئےنی ماہرےن کا ماننا ہے کہ مذکورہ با اختےار کمےٹی صرف اگلے 9 دنوں مےں جی اےس ٹی کو قابل قبول بنانے کےلئے اپنی تجاوےز سامنے نہےں لاسکتی ۔ نیز اگر کل جماعتی کمےٹی نے جی اےس ٹی کے ترمےمی بل کو نئی شکل دی تو کےا سرکار مےں شامل جماعت بھارتےہ جنتا پارٹی اس شکل مےں بل کو منظور کرے گی ؟۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر نےشنل کانفرنس اور کانگرےس سمےت وادی کی مےن اسٹرےم جماعتےں رےاست کو حاصل خصوصی پوزےشن ےا دفعہ 370 کے علاوہ مالی خود مختاری کے تحفظ کو ےقےنی بنانے کےلئے جی اےس ٹی مےں ترمےم کا کوئی راستہ نکالنے مےں کامےاب ہوجاتی ہےں تو بھارتےہ جنتا پارٹی سمےت جموں نشےن پارٹےاں اس منصوبہ ےا تجوےزکو ماننے کےلئے تےار نہےں ہونگی ۔ ماہرےن کا ےہ بھی ماننا ہے کہ ےکم جولائی سے پہلے مظفر حسےن بےگ کی سربراہی والی کل جماعتی کمےٹی کےلئے ےہ ممکن نہےں ہو پائےگا کہ وہ کوئی قابل قبول راستہ نکال سکے ، اس
لئے ےکم جولائی 2017 کو جموںوکشمےر مےں جی اےس ٹی کے اطلاق پرسوالےہ نشان لگا ہوا ہے ۔ ےہاں ےہ بات قابل ذکر ہے کہ وزےر خزانہ ڈاکٹر حسےب درابو بارہا کہہ چکے ہےں کہ رےاست جموںوکشمےر مےں جی اےس ٹی کو لاگو کرنے سے رےاست کی خصوصی پوزےشن ےا مالی خود مختاری کو کوئی نقصان نہےں پہنچے گا بلکہ اس کے زےادہ مالی فوائد رےاست کو حاصل ہونگے ۔ مانا جارہا ہے کہ رےاست سرکار نے 17 جون کو طلب کئے گئے اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے دوران جو ترمےم شدہ جی اےس ٹی بل اےوان مےں رکھنے کا فےصلہ دےا تھا ، وہ ڈاکٹر حسےب درابو کی ترتےب شدہ ہے اور اب جبکہ اس بل کو مظفر حسےن بےگ کی سربراہی والی کل جماعتی کمےٹی کے سامنے رکھا جائےگا تو اس مےں کئی تبدےلےاں اور ترامےم کی جاسکتی ہےں تاہم مذکورہ کمےٹی مےں شامل کئی اپوزےشن لےڈران نے سوالےہ انداز مےں کہا کہ جو چےز ہم نے پڑھی ہی نہےں ہے ، اس پر ہم کےا رائے دے سکتے ہےں ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم حکومت کی ترتےب شدہ ترمےمی جی اےس ٹی کا مطالعہ نہےں کرےں گے ، تب تک ہم اس پر نہ تو کوئی رائے دے سکتے ہےں اور نہ اس مےں سدھار کےلئے کوئی تجوےز سامنے رکھ سکتے ہےں ۔ حکومتی حلقوں کے مطابق کل جماعتی کمیٹی کی میٹنگ آئندہ چند دنوں میں ہو رہی ہے اور اس سے قبل تمام ممبران کو ترمےم شدہ جی اےس ٹی بل کی کاپی فراہم کی جائےگی تاکہ وہ اس کا مطالعہ کر سکےں ۔