سرحدی لوگوں پر بھاری مودی حکومت کے 3سال

سرحدی لوگوں پر بھاری مودی حکومت کے 3سال
الطاف حسین جنجوعہ
مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت والے قومی جمہوری ا تحاد (NDA)کے 3 سالہ دور اقتدار میں یوں تو ملک نے کئی اُتار چڑھاو¿ دیکھے۔بالخصوص جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو کسی نہ کسی فیصلہ یا بیان کے سبب متاثر ہونا پڑا لیکن حدمتارکہ(ایل او سی)اور بین الاقوامی سرحد(آئی بی) پر رہنے والوں کو سب سے زیادہ قیمت چکانی پڑی ۔ ان تین برسوں نے انہیں 2003سے قبل کی یادیںتازہ کرا دیں جن کے زخم ابھی تک پوری طرح بھرے بھی نہ تھے۔پاکستان کے ساتھ مودی حکومت کے سخت رویہ اور مذاکراتی سلسلہ منقطع کرنے کا براہ راست خمیازہ ان سرحدی باشندوں کو بھگتنا پڑا جو اب 24گھنٹے بندوقوں کی گھن گرج میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ بھاجپا کے اس تین سالہ دور ِ حکومت میں جنگ بندی خلاف ورزیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ درجنوں قیمتی جانیں بھی زیادہ تلف ہوئیں۔سال 2016میں کل449مرتبہ جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہوئیں جس میں 221ایل او سی اور 228بین الاقوامی سرحد پر تھیں۔ سال 2015میں 405مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔2014میں یہ تعداد584رہی۔ اس سے قبل اگر تین برس کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو یہ واقعات اس کے مقابلہ میں کم تھے۔ یعنی سال2011میں62،2012میں114اور2013میں347مرتبہ جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئیں۔سال2016میں فائرنگ کے تبادلہ کے دوران مجموعی طور267لوگ مارے گئے جس میں165جنگجو،88سیکورٹی اہلکار اور14عام شہری شامل تھے۔ سال 2015میں آر پار فائرنگ کے دوران 174ہلاکتیں ہوئیں جن میں113جنگجو، 41سیکورٹی فورسز اہلکار اور 20شہری شامل تھے۔سال2011سے2013تک کل481ہلاکتیں ہوئیںجس میں 303جنگجو،108سیکورٹی اہلکار اور 70عام شہری شامل تھے۔2014سے2017تک کے تین سال کے دوران 634ہلاکتیں ہوئیں جن میں 388جنگجو،180سیکورٹی فورسز اہلکار اور 66عام شہری شامل تھے۔2002میں 8376مرتبہ ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے جس میں313انسانی جانوں کا اتلاف ہوا تھا۔ سال2003کے تاریخی جنگ بندی معائدہ کے بعد یہ تعداد گھٹ کر2045ہوئی اور پھر آنے والے برسوں میں ان اعدادوشمار میں بتدریخ کمی آتی گئی لیکن اب پچھلے تین سال سے پھر اس میںاضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ رواں برس یکم جنوری سے اب تک 23شہری اور 25کے قریب سیکورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں جبکہ جنگجوو¿ں کی تعداد50سے زائد ہے۔ ریاست کی سرحدوں پر ہندپاک افواج کے مابین فائرنگ کے تبادلہ کے واقعات سے متعلق جو اعداد وشمار پچھلے تین برسوں کے ہیں، ان کا 2011سے2014کے تین سال کے ساتھ موازنہ کیاجائے تو بظاہر ایسا لگ رہاہے کہ حالات دوبارہ سے 2003سے قبل کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔سرحدوں پر رہائش پذیر لوگوں کا چین وسکون مکمل طور چھن چکا ہے ، بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ سرحدی علاقہ جات میں لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش کھیتی باڑ ی اور مزدوری ہے لیکن ایسی صورتحال میںوہ بھی ممکن نہیں۔ان علاقہ جات میں ’سیکورٹی وجوہات ‘کی بنا پرانتظامیہ تو پہلے ہی سے مفلوج تھی، اب حالت زیادہ ہی ابتر ہورہی ہے۔ سرحدی علاقہ جات میں عوام مکمل طور فوج کے رحم وکرم پر ہیں۔ان لوگوں کے لئے ’مدعی، وکیل اور مصنف‘تینوں فوج ہی ہے۔مرکزی سرکار کو چاہئے کہ ’کشمیرمسئلہ‘کے حوالہ سے مذاکراتی عمل کے منقطع سلسلہ کو بحال کرنے کے لئے اقداما ت اٹھائے کیونکہ ریاست کے سازگار حالات مذاکرات سے مشروط ہیں۔ بات چیت کے عمل پرجتنی زیادہ تاخیر گی اتنی ہی یہاں امن وقانون کی صورتحال خراب ہو گی ۔خصوصی طور پر اس کی قیمت سرحدی علاقوں کے لوگوں کو چکانی پڑے گی ، جیسا کہ گزشتہ تین سال کے اعداد و شمار سے ظاہر ہو تا ہے ۔