مہاراجہ کی طرف سے قائم کی گئی روایات سیاست کا شکار

دونوں خطوں میں دربارموو¿ کی مخالفت لیکن انداز اپنا اپنا
مہاراجہ کی طرف سے قائم کی گئی روایات سیاست کا شکار
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//145برس قبل اُس وقت کے جموں وکشمیر ریاست کے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی طرف سے ہر چھ ماہ کے لئے سرینگر اور جموں سرکاری دفاترکی منتقلی کی روایات آج بھی بدستور قائم ہے۔پچھلے کئی سال سے مختلف سیاسی وعوامی حلقوں سے یہ آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں کہ مہاراجہ کی طرف سے اپنی شاہانہ آسائش کے لئے قائم کی گئی اس روایت کو آج کے دور میں ختم کیاجائے لیکن حکومتی سطح پر اب تک اس بارے کوئی غوروخوض نہ ہوا ۔ پچھلے چند برسوں کے دوران یہ دیکھنے میں آیا ہے جب گرمائی راجدھانی سرینگر سے اکتوبر ماہ کے آخری ہفتہ میں سول سیکریٹریٹ دفاتر بند ہوکر جموں شفٹ ہونے والے ہوتے ہیں، تو وادی کے مختلف حلقوں سے یہ مانگ کی جاتی ہے کہ دربار موو¿دفاتر شفٹ نہ کئے جائیں ۔ اپریل کے آخری ماہ میں جب جموں سے دربار کی شفٹنگ ہوناہوتی ہے تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جموں اور کشمیر چیمبرز نے اس معاملہ کو بڑے وزور شور سے اٹھایا ہے کیونکہ دربارموو¿ دفاتر کی منتقلی کی وجہ سے تجارتی کاروبار کافی حدتک متاثر ہوتا ہے۔اب یہ ایک اہم سیاسی مدعا بن گیا ہے جس پر مختلف حلقوں سے صدابلند ہورہی ہے ۔جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی چیئرمین اور سابقہ وزیر تعلیم ہرشدیو سنگھ اس مدعا کو بڑی شدت سے اجاگر کرتے آرہے ہیں۔ گذشتہ روز بھی انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں دربار مودفاتر منتقل کرنے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمائی راجدھانی جموں میں ہی صرف سول سیکریٹریٹ دفاتر رکھے جائیں یہاں سے پوری ریاست میں بہتر طریقہ سے کام کاج کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر کے حالات سازگار نہیں اور وہاں پر حکومت کا کوئی کام کاج نہ ہوسکے گا۔ کشمیر میں دربار موو¿ دفاتر منتقل کرنے سے وادی میں تو کوئی تعمیری کام کاج ایجی ٹیشن، ہڑتال اور دھرنوں کی وجہ سے نہیں ہوتا، ساتھ ہی صوبہ جموں میں بھی تعمیروترقی کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور ساتھ ہی عوام کو بھاری مشکلات سے گذرنا پڑتاہے۔ ہرشدیو سنگھ نے کہاکہ اگر سرکارصحیح معنوں میں ریاست کی ترقی، خوشحالی اور عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے کے تئیں مخلص ہے تو پھر اپنی ذاتی آسائش کے لئے دربار موو¿ کی روایت کو ترک کیاجائے۔ سی معاملہ کو لیکر 6اپریل کو یہاں جموں میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سابقہ وزیر گل چین سنگھ چاڑک نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو دوران تقریر ٹوکتے ہوئے دربار موو¿ کی سرینگر منتقلی کی مخالفت کی۔یونہی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بولنا شروع کیا تو چاڑک نشست سے کھڑے ہوئے اور سوالیہ انداز میں پوچھا”کشمیر میں دربار موو¿ شفٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے جب وہاں صورتحال موافق نہیں….؟،آپ (محبوبہ مفتی)جانتی ہوکہ سول سیکریٹریٹ کام نہیں کرسکتے کیونکہ گذشتہ سال بھی نہیں کام ہوپایاتھا۔ لوگوں کا کام متاثر ہوگا تو پھر دربار موو¿ کو شفٹ کرنے کی ضرورت کیا ہے“۔ گذشتہ برس کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری صدر نے اس بارے کہاتھاکہ دربارموو¿ ریاستی خزانہ عامرہ پر نہ صرف ایک بوجھ بلکہ اس سے ایڈمنسٹریشن اور حکومت کی اہلیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ چیمبر کشمیر کا حکومت کو مشورہ تھاکہ اس معاملہ پر غوروخوض کیاجائے اور دونوں خطوں(کشمیر/جموں)کے تمام حصہ داروں کو اعتماد میں لیکر کوئی قابل عمل حل نکالاجائے۔ وہیں جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بھی یہی مانگ رہی ہے کہ حکومت کو دربار موو¿ پر سوچنا چاہئے، دنیا میں کہیں بھی سرکاری دفاتر اور سٹاف کی منتقلی نہیں ہوتی سوائے جموں وکشمیر ریاست کے، اس وقت مہاراجہ گلاب سنگھ موسمی صورتحال اور اپنی آسائش کے لئے ایسا کیاکرتے تھے لیکن آج تک خاص کر جمہوری نظام حکومت میں اس طرح کی کوئی ضرورت نہیں۔ غور طلب ہے کہ جب کشمیر میں موسم سرماکے دوران حکومت کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس وقت حکمران اور انتظامیہ جموں میں ہوتی ہے تو جب جموں میں شدت کی گرمی کے دوران چھ ماہ عوام کا بجلی وپانی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے حال بے حال ہوتا ہے تو اس وقت سول سیکریٹریٹ دفاتر، افسران اور وزراءوادی کشمیر کی فضاو¿ں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ پچھلے145برسوں سے دربار مو کا یہ انوکھا اور انتہائی خرچیلا رواج یا روایت ریاست میں رائج ہے اور ہر سال موسم سرما کے آتے ہی سیول سیکریٹریٹ کے دفاتر جموں منتقل کئے جاتے ہیں ۔موسم گرما یا بہار کی آمد کے ساتھ ہی ماہ مئی میں یہ دفاتر دربار مو کے تحت سرینگر میں کھل جاتے ہیں۔ دربار مو کی آواجاہی پر ہر سال کروڑوں روپے کی رقم مختلف طریقوں سے صرف کی جاتی ہے ۔ اپریل2012میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹرپرٹویٹ کیاتھاکہ کیا ہمیں سوچنا چاہئے کہ دربارموو¿ شفٹنگ پیسہ کی بربادی ہے، ہاں ضرور سوچنا چاہئے۔ اس کا کوئی متبادل ہے ، اس کا متبادل ہوسکتا ہے تاکہ عوام کو مشکلات سے گذرنا نہ پڑے۔ سول سیکریٹریٹ دفاتر اور اس سے منسلک قریب7000ملازمین کی شفٹنگ ہوتی ہے اور اس پر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سالانہ 100کروڑ روپے خرچہ آتاہے۔ ، سول سیکریٹریٹ، اولڈ سیکریٹری عمارت اور سرکاری کوارٹروں کی دیکھ بھال پر جموں اور کشمیر میں خطہ میں سالانہ 8کروڑ روپے کا بجٹ لگتا ہے ۔ علاوہ ازیں ملازمین کو10ہزار فی کس خصوصی موو¿ سفری الائنس بھی ملتا ہے جس میں وقتاًفوقتاًبڑھوتری میں کی جاتی ہے۔جب تک مہاراجہ کی روایت قائم رہتی ہے اس پر سیاست بھی ہوتی رہے گی اور توقع ہے کہ آنے والے سالوں میں اس میںشدت بھی آئے۔