’کشمیر میں تشدد نے نوجوان کو بے خوف کر دیا ہے:رپورٹ کشمیری سمجھتے ہیں کہ بھارت کشمیر کو سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں

نئی دہلی //کشمیر میں سات لاکھ کے قریب فوجی اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار تعینات ہیں۔انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے انڈیا مخالف مظاہروں کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا ہے اور وہ موت کو گلے لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہ بات انڈیا میں ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے کشمیر کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں کشمیر کی نوجوان نسل کی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے کہی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کشمیریوں کا خیال ہے کہ بنیادی مسئلہ انڈیا کی ریاست کی طرف سے اس بحران کا اعتراف نہ کرنا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کشمیری سمجھتے ہیں کہ انڈیا کشمیر کو سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے اور اس کے سیاسی حل پر تیار نہیں ہے۔سنہ 2016 میں کشمیر میں عام لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد یہ رپورٹ مرتب کرنے والے گروپ میں سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، اقلیتیوں کے قومی کمیشن کے سابق سربراہ وجاہت حبیب اللہ، بھارتی فضایہ کے ایئر واس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک، معروف صحافی بھارت بھوشن اور سینٹر آف ڈائیلاگ اینڈ ریکنسیلیشن کے پروگرام ڈائریکٹر ششہوبا بریو شامل تھے۔کشمیرکی کل آبادی کا اڑسٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اس گروپ نے سنہ 2016 میں کشمیر کے مختلاف علاقوں میں شدید مظاہروں اور سینکڑوں نوجوانوں کی ہلاکت کے واقعات کے بعد بٹگرام، شوپیاں، اننت ناگ اور بارہ مولہ کا دورہ کیا اور وہاں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں سے بھی مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کی۔ اس کے علاوہ گروپ نے کشمیر کے سرکردہ سیاسی قائدین انجینئررشید، سیف الدین سوز اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے کئی ممبران سے بات کی۔گروپ نے رپورٹ کے بنیادی نتائج میں کہا کہ جتنے بھی کشمیریوں سے انھوں نے ملاقاتیں کئیں ان سب نے مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیا اور کہا کہ جب تک اس کا سیاس حل تلاش نہیں کر لیا جاتا وادی میں موت اور تباہی کا سلسلہ زیادہ شدت سے جاری رہے گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انڈیا پر ان کو اعتماد نہیں رہا اور بداعتمادی کی یہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ کشمیریوں کا خیال ہے کہ انڈیا کی ریاست کشمیر کو صرف قومی سلامتی کے زوایے سے دیکھتی ہے۔رپورٹ کے مطابق تمام کشمیری سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کی اس تجویز کو یاد کرتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کو انسانی ہمدری کے دائرے میں حل کیا جائے۔ لوگوں کو یقین ہے کہ دہلی کی موجودہ حکومت مسئلہ کے سیاسی حل میں دلچسپی نہیں رکھتی۔کشمیرکے نوجوانوں کے بارے میں جو کشمیر کی کل آبادی کا اڑسٹھ فیصد بنتے ہیں رپورٹ میں کہا کہ کشمیر کا نوجوان بے خوف اور شدید نا امیدی کا شکار ہے۔ایک نوجوان جس کا نام رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا گیا اس کے حوالے سے کہا گیا کہ ’سب سے اچھی چیز جس کے ہم شکر گزار بھی ہیں وہ ہتھیاروں کا استعمال ہے جس میں پیلٹ گنیں شامل ہیں، جس نے ہمارا ڈر اور خوف نکال دیا ہے۔ ہم اب شہادتوں پر جشن مناتے ہیں۔‘رپورٹ میں کہا گیا نوجوانوں میں کچھ تو انڈیا سے مذاکرات کرنے پر تیار ہی نہیں ہیں اور ان کے روز مرہ کی بول چال کے الفاظ ہی بدل گئے ہیں جن میں ہڑتال، کرفیو، شہادت اور برہانی وانی کے الفاظ کا استعمال حاوی رہتا ہے۔رپورٹ کہا گیا کہ لوگوں سمجھتے ہیں کہ مظاہروں میں وقفہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ عمومی طور پر ایک خوف ہے کہ آئندہ موسم گرما میں اپریل سے ستمبر کے درمیان کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سنہ 2017 میں اپنی شدت اور سنگینی کے اعتبار سے کوئی بڑا واقع پیش آ سکتا ہے۔کشمیر میں ایک عمومی خوف موجودہ کہ اس موسم گرما میں کوئی واقع پیش آ سکتا ہے ۔عام کشمیریوں کے ذہنوں میں اس مسئلے کے حل کا جو خاکہ ہے اسے بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ لوگوں کے خیال میں اس مسئلے سے وابستہ تمام فریقوں، انڈیا، پاکستان اور تمام کشمیر کے عوام کو شامل کیے بغیر اس کا حل ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ فریقین کو اس مسئلہ کے حل کے لیے لچک دار رویے اپنا ہو گا تاکہ کشمیر کے لوگوں کی مشکلات دور ہو سکیں۔(بی سی سی)