تعمیر ،ترقی اور روزگار کی باتیں اچھی نہیںلگتی آزادی ہدف اول ،لبھانے اور رجھانے کے دن گئے :شبیر احمد شاہ

سرینگرفریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نے محبوبہ مفتی کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیلٹ گن متعارف کرانے والوں کی زبان سے امن اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کی باتیں اچھی نہیں لگتی اور دہلی کی نوکری کرنے والوں کو اس طرح کے بیانات اجرا کرنے سے پہلے اپنے قد و کاٹھ کا بھی جائزہ لینا چاہئے ۔بدھوار کو جاری بیان میں شبیر احمد شاہ نے کہا کہ ریاستی نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کی بات کرنے والوں کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ جن بچوں کو ریاستی سرکار نے موت کی نیند سلادیا اور درجنوں کی بینائی چھین لی ،ان کے بارے میں پی ڈی پی کے جگادریوں کا کیا فتویٰ ہے ۔شبیر احمد شاہ نے امن کی دہائی دینے والوں سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں کہ کیا کسی قوم نے روزگار ،مراعات اور دنیاوی مفادات کو صرف نظر کرتے ہوئے اپنے حقِ آزادی کو موخر یا ترک کیا ہے ۔انھوں نے بار بار کے پولٹکل پراسس کی بات کرنے والوں سے پوچھا کہ وہ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر بتائیں کہ جموں کشمیر کے عوام کو AFSPAکی سوغات کس نے پیش کی ۔سفاک اور قاتل جگ موہن کو کس نے خون کی ہولی کھیلنے کی کھلی ڈھیل دی ۔بیجبہاڑہ،سوپور اور گاﺅ کدل جیسے المیئے کس نے دئے ۔کپوارہ کو راکھ کے ڈھیر میں کس نے تبدیل کیا اور فرقہ پرستوں کو ہمارے سینوں پہ مونگ دھلنے کی کس نے راہداری پیش کی ۔شبیر احمد شاہ نے محبوبہ مفتی کے حالیہ بیان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ امن کے لئے بھیک مانگنے والے یہ بتائیں کہ ریاست کے لوگ امن کے خلاف کب تھے البتہ حق آزادی سے دستبردار ہوکر اور لبوں پہ تالے چڑھاکر جس امن کی بات کی جارہی ہے وہ غلامی سے بھی بدتر ہے ۔انھوں نے یاد دلایا کہ حزب اقتدار کو اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اسے روزگار یا تعمیر و ترقی سے نتھی کرکے مشروط نہیں کیا جاسکتا ۔شبیر احمد شاہ نے ریاستی جوانوں کے TALENTکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جوان دنیا کے کسی بھی خطے میں اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے جوہر دکھلانے کے قابل ہیں البتہ ان کے پاﺅں میںغلامی کی زنجیریں پہناکر ان کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں اور انہیںاپنی خوبیوں کے اظہار کے لئے کم ہی مواقع حاصل ہیں۔شبیر احمد شاہ نے نوکریاں دئے جانے کے وعدوﺅں کو ایک چھلاوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ روزگار فراہم کرنا کوئی احسان نہیں البتہ یہ دیکھا جانا چاہئے کہ بھارت کے قابض حکام ہمارے وسائل کس طرح دو دو ہاتھوں لوٹ رہے ہیں ۔شبیر احمد شاہ نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ کس طرح ریاستی انتظامیہ کے نام نہاد سربراہ ایک ایسے نظریہ کی حامل تنظیم کے حق میں رطب السان ہے جس کے لئے کبھی وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر چینخ رہے تھے کہ بی جے پی کو روکو اور اب انہی کے چرنوں میں سر رکھ کر یہ دہائی دے رہے ہیں کہ” کرپا ہماری سرکار کی ڈولتی نیا کو پار لگاﺅ ”۔انھوں نے تعمیر و ترقی سے متعلق نام نہادایجنڈے کو ایک ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جھوٹ پر جھوٹ اس طرح بولا جارہا ہے کہ شرم بھی شرما جاتی ہے اور پیلٹ گن متعارف کرانے اور مزید منگوانے والوں کے منہ سے یہ باتیں سن کر یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں جھوٹ کی دیوی اپنا سر پیٹ نہ لے ۔شبیر احمد شاہ نے اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا وہ امن اور ترقی کے ہم بھی متمنی ہیں لیکن قبرستان جیسی خاموشی کو ہم امن نہیں غلامی تصور کرتے ہیں اور ہمارے لئے بھارت سے آزادی حاصل کرنا ترجیحات میں شامل ہے ۔انھوں نے غلامی پر رضامند بھارت نواز سیاست کاروں کو مشورہ دیا کہ وہ ترقی جیسے الفاظ کی گردان کرنے سے پہلے اپنے ارد گرد یہ دیکھیں کہ ریاست میں 500 سے زائد قبرستان کن لوگوں کے اشاروں پر آباد ہوئے اور ان گھروں میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہئے جن کے بچے اور بزرگ جیلوں میں سچ بولنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔