احوالِ پیر پنجال الطاف حسین جنجوعہ

احوالِ پیر پنجال
الطاف حسین جنجوعہ
9697069256
ضلع پونچھ 3اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے جن میں حویلی پونچھ، مینڈھر اور سرنکوٹ شامل ہیں۔ 1962میں سرنکوٹ اور مینڈھر مشترکہ طور ایک ہی اسمبلی حلقہ ہوا کرتاتھا، جس میں پہلی مرتبہ ہوئے اسمبلی چناو¿ میں نیشنل کانفرنس کے پیر جماعت علی شاہ بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔1967کو ہوئے انتخابات میں کانگریس کے مرحوم چوہدری محمد اسلم بلامقابلہ منتخب ہوئے۔1972میں پھر کانگریس کے چوہدری اسلم نے آزاد امیدوار محمد سعید بیگ کو ہرایا۔ 1962میں اسمبلی حلقہ مینڈھر وسرنکوٹ کا نمبر19تھا جوکہ 1997میں74ہوا، 1987میں سرنکوٹ حلقہ کا نمبر85پڑا۔ 1977کو سرنکوٹ اعلیحدہ سے اسمبلی حلقہ بنا تھا۔ اس وقت سرنکوٹ اسمبلی حلقہ کا نمبر74تھا جوکہ اب 85ہے۔1977کے چناو¿ میں پھرمرحوم چوہدری محمد اسلم نے 11608ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی اور این سی کے امیدوار محمد سعید بیگ 9346ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 1983میں مرحوم چوہدری اسلم نے محمد سید بیگ اور1987میں آزاد امیدوار محمد ایوب شبنم کو شکست دیکر اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔1996اور2002کے اسمبلی چناو¿ میں این سی کے مشتاق بخار ی سرخرو ہوئے۔2008میں پھر سے کانگریس کے چوہدری محمد اسلم اور2014چناو¿ میں مرحوم چوہدری محمد اسلم کے فرزندچوہدری محمد اکرم نے کامیابی حاصل کی۔2015میں پی ڈی پی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط سرکار کے جموں وکشمیر ریاست کے اندر برسر اقتدار میں آنے کے بعد سرحدی ضلع پونچھ کے حلقہ انتخاب سرنکوٹ کی عوام کو امید تھی کہ سات دہائیوں کے زائد عرصہ کا جمود ٹوٹے گا اور اس مرتبہ سرنکوٹ کو قانون سازکونسل(ایوانِ بالا)میں نمائندگی ملے گی۔ سرنکوٹ کوکونسل میں نمائندگی ملنا اس لئے بھی ضروری تھاکہ اس حلقہ انتخاب میں متبادل تیار ہو کیونکہ جب سے حلقہ انتخاب سرنکوٹ میں انتخاب ہوئے ہیں، یہاں پر صرف دو خاندانوں کا ہی راج رہا ہے، تیسرے کسی بھی شخص کو آگے آنے نہیں دیاگیا۔ ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشتمل سب ڈویژن سرنکوٹ کی عوام کو آج تک کونسل میں نمائندگی سے محروم رکھاگیاہے۔اب تک کی تاریخ میں سرنکوٹ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی امیدوار کو کونسل میں نمائندگی نہ دی گئی۔اس کے برعکس اسمبلی حلقہ مینڈھر سے مرتضیٰ احمد خان، محمد رشید قریشی، چوہدری رحیم داد، چوہدری نثار، مرحوم لال محمد صابر، جاوید احمد رانا ایم ایل سی جبکہ پونچھ پونچھ سے جہانگیر حسین میر، یشپال شرما، شہناز گنائی، میرغلام محمدپونچھی، محمد دین بانڈے، چوہدری بشیر ناز اور غلام محمد گنائی ایم ایل سی رہ چکے ہیں اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے پردیپ شرما بھی پونچھ سے ایم ایل سی بنائے گئے ہیں۔کونسل میں نمائندگی دینے کی وجہ سے مینڈھر اور حویلی پونچھ اسمبلی حلقوںکانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جماعتوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ پونچھ سے یشپال شرما کو ایم ایل سی بنائے جانے کی بدولت 2014کے چناو¿ میں پی ڈی پی وہاں سے نشست پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔سرنکوٹ میں پی ڈی پی کامستقبل روشن تھا کیونکہ اس جماعت سے وابستہ امید وار سید اقبال حسین شاہ کاظمی نے سال 2014کے اسمبلی انتخابات میں بھی ناکامی کے باوجود پچھلے دو سالوں کے دوران ایک ایم ایل اے کا سارول نبھایا ، پہلی مرتبہ سرنکوٹ اسمبلی حلقہ میں عوام دوست اور متوازی ایڈمنسٹریشن ملی۔ موصوف کی طرف سے ہر ماہ عوامی مسائل ومشکلات کی تفصیلات ضلع انتظامیہ کی نوٹس میں لانے سے پہلی مرتبہ سرنکوٹ حلقہ کے تئیں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن بھی سنجیدہ دکھائی دی۔و ہ کام جو پہلے کرانے میں کئی ماہ لگتے تھے ، وہ بلاکسی روک ٹوک حل ہونے لگے۔ زمینی سطح پر سید اقبال کاظمی نے خادم بن کر جس طرح لوگوں کا کام کیا، اس سے سرنکوٹ کی عام عامہ کے اندر پی ڈی پی کے تئیں مثبت سوچ قائم ہوئی اور انہیں لگاکہ یہی وہ جماعت ہے جوان کے ساتھ انصاف کرسکتی ہے، صحیح معنوں میں سرنکوٹ کے اندر جمہوری نظام کو پنپنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے لیکن پارٹی نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ایک تاریخی موقع ہاتھ سے گیا۔ پہلی مرتبہ ایک ایسا لیڈرعوام کے سامنے آیا جس نے کسی کے پیر کاٹے نہیں بلکہ ہرایک کو بااختیار بنانے کی کوشش کی، اچھی ٹیم تیار کی اور جس میں جوقابلیت تھی، اسی کے حساب سے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پر کوئی بھی ایسے کسی بھی شخص جواس کے لئے مستقبل میں خطرہ بنے، اس کو مضبوط نہیں ہونے دیتا لیکن 2014میں سرنکوٹ سے پی ڈی پی کی نشست پر اسمبلی چناو¿ لڑنے والے امیدوار نے اس روایت کو غلط ثابت کیا۔اسمبلی حلقہ انتخاب سرنکوٹ میں صحیح معنوں میں آج جمہوریت نہ پنپی ہے ، یہاں پر ووٹ کا فیصلہ ذات ، برادری کی ہی بنیاد پر ہوتا ہے جس سیلاب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذی شعور افراد اور دانشور طبقہ بھی بہہ جاتاہے، یہی وجہ ہے کہ 1962کے بعد سے آج تک ماسوائے 12سالوں کے سرنکوٹ کی سیاست کا مرکز گاو¿ں ”لسانہ‘ ‘رہاہے۔ سیاست میں مقابلہ آرائی (Competition)نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے نمائندے انتخابات کے بعد اکثر سست رہے ہیں جس کی وجہ سے سرنکوٹ حلقہ میں وہ ترقی نہ ہوسکی جوہونی چاہئے تھی۔سیاسی عزم(Political Will)کے فقدان کی وجہ سے سرنکوٹ کے حسین وجمیل علاقے سیاحتی نقشہ پر نہ آسکے۔ اہم ترین شاہراہ بفلیاز۔ منڈی۔پھاگلہ تعمیر نہ ہوسکی۔ سرنکوٹ میں کوئی کھیل کا میدان نہیں۔ برسوں سے پونچھ کا تجویز شدہ ائرپورٹ جوسرنکوٹ میں بننا ہے، کا پروجیکٹ لٹکا پڑاہے۔آج بھی درجنوں گاو¿ں ایسے ہیں جہاں کے لوگوں نے بجلی کا بلب، سڑک نہیں دیکھی ۔ وہ آج بھی قدیم انسان کی طرح زندگی جینے پر مجبور ہیں۔اسمبلی حلقہ انتخاب سرنکوٹ میں نوجوان سیاسی قیادت ترقی نہ پاسکی ہے، اگر کسی نے سر اٹھانے کی بھی کوشش کی تو اس کو کسی نہ کسی طریقہ سے دبا ہی دیاگیا، یہ عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔ جوچند رہنما ہیں ، جن میں صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرنے، علاقہ کی موثر نمائندگی کرنے، خطہ کی ترقی کو یقینی بنانے کا جذبہ ہے، بااختیار(Empower)کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔سرنکوٹ اسمبلی حلقہ کے اندر تب تلک وہ ترقی نہیں ہوسکتی جویہاں ہونی چاہئے جب تک اقتدار کے مرکز دو خاندانوں کو ٹکر دینے والا کوئی تیسر ا پیدا نہیں ہوگا۔یہاں کسی بھی امیدوار کی مدح خوانی یااس کی تنقید کرنا مطلوب نہیں بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ ترقی، خوشحالی وہیں ہوتی ہے جہاں زیادہ Competitionہوتا ہے، ہر امیدوار کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس نے عوام کی نمائندگی نہ کی تو اگلی بار اس کی کرسی محفوظ نہیں لیکن سرنکوٹ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پر برسراقتدار حکمراں کو معلوم ہے کہ وہ کام کرے یا نہ کرے، انتخابات میں جیت اسی کی ہوگی کیونکہ انہیںیہاں کی عوام کی دکھتی رگ کا بخوبی انداز ہے ۔ برسراقتدارسیاسی قیادت کو سرنکوٹ میں سیاسی متبادل کو یقینی بنانے کے لئے اپنامثبت رول ادا کرنا چاہئے۔
9697069256
ای میل:[email protected]