’’شائد کی اُتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘

خطہ چناب کی پسماندگی کا حل ’پہاڑی ترقیاتی کونسل ‘میں ہی مضمر
’موجودہ وسابق قانون سازیہ ارکان وسیول سوسائٹی ممبران ایک آواز میں منظم جدو جہد شروع کریں‘
 
اشتیاق ملک
گندوہ؍؍ خطہ چناب کو پہاڑی ہل ڈیولپمنٹ کونسل کی مانگ کی تحریک اگر چہ کچھ دیر تک چلتی رہی تاہم پچھلے کئی برسوں سے یہ معاملہ زیر التواء میں پڑا ہے نہ ہی حکومت نے اس طرف کو ئی دھیان دیا اور نہ ہی عوامی نمائندوںیا مقامی سیول سوسائٹی نے کوئی اتنی بڑی جدوجہد کا مظاہرہ کیا کہ جس پر سرکار بھی فیصلہ کرنے پر مجبور ہو۔اس معاملہ پر اگر چہ چناب ویلی کے کئی ارکان قانون سازیہ نے ایوان میں بل بھی لائے تاہم آپسی تال میل کے فقدان کے باعث کسی بھی سرکار نے اس پر غور نہیں کیا اور گزشتہ برس کے دوران جاری اسمبلی اجلاس میں پھر سے سابق وزیر وایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی نے ایوان زیریں میں ایک بل پیش کیا جس پر اسپیکر نے بحث کے لئے منظور بھی دی تاہم حکومتی سطح پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک نہ سبھی جماعتوں سے وابستہ قانون سازیہ ارکان سیاسی ،علاقائی و مذہبی بنیادوں سے بالا تر ہو کر خطہ چناب پہاڑی ترقیاتی کونسل کے لئے یکجٹ ہونا ہوگا۔جہاں تک چناب ویلی کی تعمیر وترقی کی بات کی جائے تو آج یہ خطہ پسماندگی کی طرف جا رہا ہے ویسے آزادی کے بعد سے لے کر ہی اس خطہ کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے اس کا استحصال کیا گیا لیکن جوں کانگریس و پی ڈی پی حکومت کاقیام غلام نبی آزاد ومفتی محمد سعید کی قیادت میں عمل میں لا یا گیا تو اس خطہ کی پسماندگی کچھ حد تک دور ہوئی ۔سڑکوں ،کالجوں ،اسکولوں ،پلوں کے علاوہ تین اضلاع ودیگر کئی نئے اتنظامی یونٹوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاہم یہ معاملہ ایک بار پھر اُسوقت ٹھنڈا ہوا جب عمر عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس وکانگریس مخلوظ حکومت برسر قتدار آئی ۔ اُس حکومت نے خطہ کو سیاسی انتقام گیری کا شکار بنا کر آزاد کے شروع کئے گئے پروجیکٹوں کو بھی پس پشت ڈال دیا اور وہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔خطہ چناب میں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔سرسبز وشاداب جنگلات ،خوبصورت ودلکش مقامات، پانی کی بھر وزاعفران زار وادی ،لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان وسائل کا استعمال کرکے حکومت خطہ کی تعمیر وترقی پر صفر کے برابر خرچ کررہی ہے۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر خطہ چناب کو لداخ کی ترز پر علیحدہ پہاڑی ترقیاتی کونسل کا درجہ دیا جائے تو اس خطہ کی تعمیر وترقی ،خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے سبھی عوامی نمائندوں کو یکجٹ ہو کر اس بل کی حمائت کرنی چاہئے تب جا کر خطہ میں تعمیری وترقیاتی کاموں کا انقلاب آسکتا ہے ۔عوامی حلقوں میں موجودہ حکومت کی عدم توجہی پر بھی شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے چونکہ اس وقت خطہ چناب میں حکمراں جماعت بھاجپا سے وابستہ چار ممبران اسمبلی وایک ممبر پارلیمنٹ ہے لیکن اُ س پیمانہ پر ترقی کی رفتار نہیں چل رہی ہے جس کی لوگوں میں امید تھی۔ایک طرف جہاں خطہ چناب کی شہہ رگ کہلانے والی بٹوت ڈوڈہ وکشتواڑ شاہراہ خستہ حالی کاشکار ہے وہیں دوسری طرف ضلع وتحصیل سطح پر قائم ہسپتالوں ودیہاتوں کے طبی مراکز میں ڈاکٹروں ، ادویات ودیگر سہولیات نایاب ہیں جبکہ آزاد دور کے درجنوں پروجیکٹ ادھورے پڑے ہیں۔ایک سیاسی وسماجی کارکن لیاقت علی کا کہنا ہے کہ خطہ چناب کی ترقی وخوشحالی پہاڑی ترقیاتی کونسل سے ہی ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ اس خطہ میں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے اس سے حاصل آمدنی کو چناب ویلی کی تعمیر وترقی پر خرچ کرنے کے بجائے ریاست وملک کے باقی شہروں پر صرف کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کونسل کے قیام سے خطہ کے ہزاروں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو بھی روزگار مل جاتا اور حقیقی معنوں میں خطہ ترقی کی بلندیوں کو چھو لیتا مگر اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خطہ سے وابستہ تمام قانون سازیہ ارکان ، سابق وزراء و ارکان قانون سازیہ کے ساتھ ساتھ سیول سوسائٹی ممبران کو یکجٹ ہو کر ایک آواز بلند کرنی ہوگی تب جا کر حکومت وقت کوئی مثبت قدم اٹھا سکتی ہے۔