’جمہوریت کا جنازہ ہے بڑی شان سے نکلے گا ‘

نازش ہماقاسمی
 ملک کی پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج سامنے ا?چکے ہیں۔ اترپردیش ، اتراکھنڈ میں بی جے پی اکثریت کے ساتھ بھگوا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئی، وہیں  پنجاب میں اسے کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا، گوا اور منی پور میں جعل سازی کرکے ایم ایل اے کی خریدوفروخت کے ذریعہ جمہوریت کی پامالی کرتے ہوئے سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ ان پانچوں ریاستوں میں انتخاب سے عوام میں جو پیغام پہنچا ہے وہ یہی کہ ملک  میں اب سیکولرازم نہیں رہا۔ صدیوں سے امن پسند ی کا امین یہ ملک اب خالص ہندوتوا کی طرف تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ ہندوتوا اپنے طویل سفر کو پورا کرلے اور اپنے عزائم کہ’’ 2022 تک ملک ہندو راشٹر ہوجائے گا ‘‘کی تکمیل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یوپی جیسے حساس اور باشعور عوام کی ریاست سے بی جے پی کا کامیاب ہوجانا کسی المیہ سے کم نہیں۔ عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے بی جے پی کو ووٹ کیا ہی نہیں تو پھر کیسے وہ یہاں سے کامیاب ہوگئی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ جو بڑے ہی شدومدکے ساتھ ابھی بیان کی جارہی ہے وہ یہ کہ بی جے پی نے دجل اورمکروفریب سے کام لے کر ای وی ایم مشین میں گڑبڑی کی اور رائے عامہ کودھاندلی کے ذریعہ اپنے نام کرلیا۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ مسلم ووٹ اور سیکولر ووٹ تقسیم ہوکر بے اثر ہوگئے۔ جس طرح 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ہوئے تھے۔ اور تیسری اور سب سے اہم وجہ کہ بی جے پی ہندو ووٹوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہی ، جس کا پھل اسے یوپی فتح کرکے ملا۔
 ملک کی عوام کو یوپی انتخابات سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں کہ یوپی میں سیکولر ازم کے پاسداروں کی حکومت قائم ہوگی۔ گٹھ بندھن کے ذریعے فرقہ پرست پارٹیوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا جائے گا لیکن وہ سب کچھ نہیں ہوا اور عوام کی اْمیدوں پرپانی پھرگیا۔ جس طرح سے 2014 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد ملک میں یکے بعد دیگر ے پے درپے اور مسلسل کچھ ایسی وارداتیں رونما ہوئیں تھیں، جنہوں نے یہ یقین پختا کردیا تھا ، کہ ملک سے جمہوریت کا جنازہ بڑے زور وشور سے اْٹھ رہا ہے ،لیکن اس کے بعد دہلی اسمبلی الیکشن نے بی جے پی کو جھاڑو لگائی ،پھر بہار الیکشن نے بی جے پی کی خوابوں کو چکنا چور کر ، آن بان شان سے آگے بڑھتے بھگوارتھ کو روکنے کا کام کیا تھا۔ وہی امیدیں یوپی میں بھی عوام کو تھی کہ اگر بی جے پی کا الیکشن میں مدعا گائے ہوگا تو نتیجہ گوبر ہوگا اور رام مندر ہوگا تو نتیجہ گھنٹہ ہوگا، لیکن الیکشن کے ا?خری مرحلے میں رمضان اور دیوالی عید اور ہولی شمشان اور قبرستان کے مدعے کو بکائو میڈیا اور وزیر اعظم نے اس شدت سے اْٹھایا کہ عوام کنفیوز ہوگئی اور مسلمان بٹ کر کئی حصوں میں تقسیم ہوگئے ، اور سیکولر سمجھے جانے والے دلت اور یادو بھی بی جے پی کو ووٹ دینے پر مجبور ہوگئے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ اس سے قبل مرکزی حکومت کی تمام تر تدابیر ناکام  ہوتی نظر آئی اور عوام نوٹ بندی کے قہر سے مرکزی حکومت سے نالاں بھی تھے ، لیکن پھر بھی بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی ،یہ اس جانب مشیر ہے ، کہ ملک کی اکثریت اب ہندوتوا کی ڈگر پر گامزن ہے جو سیکولر ازم کے لئے شدید خطرہ ہے۔ اگر اسی طرح ملک سے سیکولر ازم کا جنازہ اْٹھتا رہا اور فرقہ پرست پارٹیاں کامیاب ہوتی رہیں تو ملک کا مستقبل تقسیم ہند کے خوفناک مناظر سے بھی بدتر ہوگا۔ دیگر نام نہاد سیکولرپارٹیاں یوپی الیکشن میں اپنی ہار کو مسلمانوں کے کاندھوں پر ڈال کر اپنی شکست کی اصل وجوہات چھپانے کی کوشش کررہی ہیں، اگر وہ پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی نہ کرتی ، انہیں مظفر نگر جیسا داغ نہ دیتی، ان کے نوجوانوں خالد مجاہد، ضیا ء�  الحق سمیت دادری کے اخلاق کو دوسری دنیا میں نہ پہنچاتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اب بھی ان پارٹیوں کے لئے وقت ہے کہ مسلمانوں کا استعمال کرنا بند کردیں، انہیں محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال نہ کریں، بلکہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھیں تبھی جاکر ملک کی بھی ترقی ہوگی اور سیکولر ازم کی بقاکی امیدبھی باقی رہیں گی۔ بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے بعد ہی اپنے بھگوا رنگ کا اظہار کردیا تھا بلکہ الیکشن سے ایک دن قبل لکھنو ڈرامہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا کہ جو کرنا ہے کرلو ہم تمہارے نوجوانوں کوبے گناہ ماریں گے، لیکن الیکشن کے بعد بہار میں مشہور عالم دین اورصحافی مولانا غفران ساجد قاسمی کو زبردستی ہولی کے رنگ میں رنگنا، ان کے اعتراض کرنے پر زدکوب کرنے کی دھمکی دینا ،اور اقلیت کا طعنہ سہنے پر مجبور کرنا، گورکھپور میں مسلم نوجوان کو مار مار کر ادھ مرا کردینا ، اور حیدرا?باد میں فساد بھڑکانا ،اس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے دو مشہور مقامات اورمرکزعلم وادب دیوبند وبریلی کے بارے میں تبصرہ کرنا اور دیوبند کا نام بدلنے کی باتیں کہنا بریلی سے مسلمانوں کو بھگانے کے لئے پوسٹر کا چپکانا ،یہ سب سیکولرازم کے سراسر منافی ہے۔ اور جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ مشہور عالم دین ملی وسماجی رہنما اور ممبرآف پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی گزشتہ دنوں ادارہ دعوۃ السنہ ممبئی کے زیر اہتمام منعقدہ ۰۲ ویں کل ہند مسابقہ القرآن میں شرکت کی غرض سے ممبئی ا?ئے ہوئے تھے ان سے خصوصی ملاقات کے دوران راقم نے جب یہ سوال کیا کہ حضرت یوپی الیکشن میں تمام نام نہاد پارٹیاں مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہی ہے، کیا صرف مسلمانوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولر ازم کی پاسداری کریں اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ہاتھوں کھلونا بنتے رہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ ’’بات سیکولرزم کی دہائی کی نہیں ہے ، بلکہ ملک کے دستور کی حفاظت کا مسئلہ ہے ،اور دستور کی حفاظت کی ذمہ داری ہم مسلمانوں کی ہے کیونکہ ملک کا دستور اگر نہیں بچا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا لہذا دستور کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کو متحد ہوکر لڑنا ہوگا۔‘‘ مولانا نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا اور ملک کے مستقبل کے تئیں کافی فکر مند تھے۔ اگر تمام پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں وہ چاہیں اور متحدہ محاذ کے ذریعہ اس وقت کے دجال کو روکنے کی کوشش کریں تو ہوسکتا ہے کہ ملک 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں سیکولر ہاتھوں میں آجائے ،اور دستور کی حفاظت کا سامان مہیا ہوسکے،لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا ہیتو انجام گلستاں کی بربادی تاریخ کا حصہ بنے گی۔ اور مورخ لکھے گا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنی جان ومال سب کچھ ملک کے لئے لٹاتا ہوا فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا ،لیکن سیکولر پارٹیاں اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف رہی۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے ، دستور کی دہائی ہے،یہ ملک سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، اس لئے تمام پارٹیاں  اترپردیش الیکشن سے سبق حاصل کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کریں، عوامی ترقی پر دھیان دیتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کی روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں اور صبح بنارس شام اودھ کی پاسبانی کرتے ہوئے آگے آئیں اور فرقہ پرستوں کو روکیں تاکہ ہندوستان بربادہونے سے بچ سکے۔