پنچایتی انتخابات پھرملتوی…. ناسازگارموسم عذر بنا،اگلے برس انتخابات متوقع

الطاف حسین جنجوعہ
جموں// ریاست میں پنچایتی انتخابات ایک بار پھرملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ حکومت نے ناسازگار موسم کا عذر پیش کرکے مذکورہ انتخابات کو ملتوی کیاہے ،اگر چہ اس سلسلے میں ابھی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے تاہم الیکشن حکام، وزارت داخلہ اور انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ حکام کو اس بارے مطلع کر دیاگیاہے۔4نومبر کو ریاستی گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے ایک آرڈیننس جاری کر کے پنچایتی الیکشن کا بگل بجایاتھا جس کے بعد سبھی سیاسی جماعتیں متحرک ہوگئی تھیں،ریاستی سرکار نے یکم دسمبر2017کو پہلے مرحلہ کے تحت چناو¿ نوٹیفکیشن جاری کرنے کی بات کہی تھی لیکن ایسا نہ کیاگیا۔باوثوق ذرائع نے بتایاکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکزی وزارت داخلہ کو بھی زمینی صورتحال سے قبل ہی آگاہ کیاہے کہ پنچایتی الیکشن کرانے کے لئے حالا ت سازگار نہیں۔ اطلاعات کے مطابق ریاست جموں وکشمیر اور مرکز نے اتفاق کیاتھاکہ پہلے مرحلہ کے تحت صوبہ جموںمیں انتخابات کرائے جائیں ۔ اس کے بعد کشمیر میں مرحلہ وار طریقہ سے سیکورٹی صورتحال کو مد نظر رکھ کر الیکشن کرائیں جائیں گے لیکن کشمیر میں سیکورٹی فورسز اور جنگجوو¿ں کے درمیان آئے روز ہونی والی جھڑپوں سے وادی کے اندر انتخابات کرانا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔متعدد سیاسی جماعتیں پنچایتی انتخابات کوسیاسی بنیادوں پرکرانا چاہتی ہیں تاکہ زمینی سطح پر اپنی طاقت اور عوام میں اپنی مقبولیت کا برملا اظہار کیاجائے۔اگر سیاسی بنیادوں پر چناو¿ کئے جاتے ہیں تو اول اس سے حکمراں جماعتوں پی ڈی پی۔ بی جے پی خاص طور سے وادی میں پی ڈی پی کو کافی دھچکالگ سکتا ہے۔دوم اس سے پنچایتی ممبران کا جانی ومالی نقصان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ قبل ازیں سرپنچوں وپنچوں کوسیاسی جماعتوں سے منسلک ہونے کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ صوبہ جموں میں تو حالات سازگار ہیں اور یہاں اگر پنچایتی انتخابات کرائے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف رائے دہندگان کی شرح زیادہ رہے گی بلکہ حکمراں جماعتوں کا پلڑا بھی بھاری رہ سکتا ہے تو وہیں اس کے برعکس کشمیر میں صورتحال پی ڈی پی کے لئے شرمندگی کا باعث بیبن سکتی ہے۔ آل جموں وکشمیر پنچایت کانفرنس کے چیئرمین شفیق میر نے انتخابات ملتوی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ کم سے کم تین ماہ تک انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔ شفیق میر نے گذشتہ روز وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر تفصیلی ملاقات کی جس میںپنچایتی اداروں سے متعلق کئی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ میر نے اڑان کو بتایاکہ دوران ملاقات انہوں نے محبوبہ مفتی سے کہاکہ پنچایتی انتخا بات کو غیر سیاسی بنیادوں پر کرایاجانا چاہئے اس سے نہ صرف لوگ بڑھ چڑھ کر الیکشن عمل میں حصہ لیں گے بلکہ امیدواروں کے جانی ومالی نقصان کا خطرہ بھی کم رہے گا۔ سرپنچوں وپنچوں کی آج تک جتنی اموات ہوئیں یا انہیں دیگر مشکلات سے گذرنا پڑا، اسی کی بڑی وجہ ان اداروں کو سیاسی جماعتوں سے جوڑنا رہاہے۔پنچایتی ادارے عام لوگوں کے ادارے ہیں۔ جب الیکشن نہیں ہوتے تھے اس وقت بھی گاو¿ں میں پنچایتیں ہوتی تھیں، ان کے فیصلوں پر عمل ہوتا تھا۔ میر کے مطابق وزیر اعلیٰ نے اس عزم کو دوہرایا کہ وہ جمہوریت کے بنیادی اداروں کو فعال بنانے کی وعدہ بند ہیں لیکن انہوں نے واضح کیاکہ وادی کشمیر میں موسم سازگار نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال انتخابات نہیں کرائے جائیں گے اور آئندہ برس اس عمل کا آغاز ہوگا۔ یاد رہے کہ آخری مرتبہ اپریل ۔ مئی 2011کو عمر عبداللہ قیادت میں این سی۔ کانگریس مخلوط حکومت کے دورمیں پنچایتی چناو¿منعقد ہوئے تھے جس میں رائے دہندگان کی مجموعی شرح80فیصد رہی تھی۔ سال 2016کے اوائل میں پنچایتی انتخاب دوبارہ کرائے جانے تھے لیکن حکومت نے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی اور پھر برہان وانی کی ہلاکت سے پیدا شدہ پرآشوب صورتحال کے سبب انتخابات ملتوی کر دیئے۔ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاست کے حصہ داروں کا اصرار تھا کہ زمینی سطح پر جمہوریت کی بحالی کے لئے پی ڈی پی۔ بی جے پی حکومت انتخابات کرائے ۔ جس کو بہتر انتظامیہ کے لئے ایک سنگ میل قرار دیاجارہاہے۔ ریاستی گورنر این این ووہرانے 4نومبر کو ایک آرڈی نینس جاری کر کے پنچایتی انتخابات کا بگل بجایا اور حکومت کو اس عمل میں تیزی لانے کو کہا۔ اس کے ردعمل میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکزی وزارت داخلہ کو یقین دلایاکہ یکم دسمبر سے الیکشن نوٹیفیکیشن جاری کر کے اس عمل میں آغاز کیاجائے گا۔ ذرائع کے مطابق ریاست میں حدبندی کے مطابق نئی280پنچایتیں بنی ہیں جس سے کل تعداد4378پہنچ چکی ہے۔ سال 2011میں پنچایتوں کی تعداد4098تھی ۔پنچ حلقوں میں4000کا اضافہ ہوا اور اب یہ تعداد33,402پہنچ چکی ہے۔ پنچایتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے مرکز سے ملنی والی اربوں روپیوں کی رقومات سے ریاستی عوام محروم ہے۔