اِرد گرد ۔۔۔۔۔۔ فوٹو ایک بینکوں نے گزشتہ 6 مہینے میں 55,356کروڑروپیے کا قرض معاف کیا

رویش کمار
گزشتہ9 سال میں بینکوں نے 2 لاکھ 28ہزار روپیے کا لون معاف کر دیا ہے۔ کیا اس سے معیشت پر کوئی فرق پڑا ہے ؟
اس سے پہلے کہ ردی نیوز چینل اور ہندی کے اخبار آپ کو کانگریس بی جے پی کے کباڑ میں دھکیل دیں، اقتصادی دنیا کی کچھ خبروں کو جاننے میں برائی نہیں ہے۔ کچھ نیا اور کچھ الگ بھی جانتے رہیے۔ باقی 90 فیصدی سے زیادہ میڈیا میں تعریف کی خبریں تو مل ہی جاتی ہوں?گی۔ آئی ٹی سیل کے لوگ بغیر پڑھے ہی کمنٹ کر سکتے ہیں۔ اقتصادی خبریں شروع ہوتی ہے اب۔
ستمبر میں عالمی بازار میں کچے تیل کا دام 54ڈالر فی بیرل تھا تب ممبئی سمیت کئی شہروں میں پیٹرول 80روپیے فی لیٹر تک بکنے لگا تھا۔1دسمبر کو کچے تیل کا دام 57.77 ڈالر فی لیٹر پہنچ گیا۔ پیٹرول کے دام کم از کم3-2 روپیے بڑھنے چاہیے تھے مگر 2 پیسے 3 پیسے بڑھ رہے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ نہیں بڑھ رہے ہیں لیکن کیا یہ حکومت کے دخل سے ہو رہا ہے اور کیا صرف الیکشن تک کے لئے روک?کے رکھا گیا ہے؟
سی بی ڈی ٹی نے حکومت سے کہا ہے کہ براہ راست ٹیکس? وصولی کے ہدف کو گھٹا دیا جائے کیونکہ سرمایہ کاری میں مسلسل آ رہی کمی کی وجہ سے کارپوریشن ٹیکس میں کمی کا اندیشہ ہے۔ ذرائع کے حوالے سے لکھی گئی اس خبر میں کہا گیا ہے کہ براہ راست ٹیکس? وصولی کے ہدف میں 20000کروڑ کی کمی کی بات کہی گئی ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کی خبر ہے۔
اس سال کے پہلے سہ ماہی میں ایڈوانس ٹیکس کی وصولی میں 11 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں ٹی ڈی ایس سے ہونے والی وصولی 17 فیصد سے گھٹ?کر 10.44فیصد پر رک گئی۔ سی بی ڈی ٹی کے چیئر مین نے اپنے فیلڈ افسروں کو کہا ہے کہ جن کمپنیوں نے 10 فیصد کم ٹی ڈی ایس ظاہر کیا ہے، ان کی تفتیش کریں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر ہے کہ پبلک سیکٹر بینکوں نے گزشتہ چھے مہینے میں 55356کروڑ روپیے کا قرض رائٹ آف (write off) یعنی معاف کر دیا ہے۔ بینکوں نے گزشتہ سال اسی دوران35985کروڑ معاف کر دیا تھا۔
2016-17 میں ان بینکوں نے 77123 کروڑ معاف کر دیا تھا۔ گزشتہ نو سال میں بینکوں نے 2 لاکھ 28ہزار روپیے کا لون معاف کر دیا ہے۔ 31مارچ، 2017 تک بینکوں ک±ل این پی اے 641057کروڑ تھا۔ کیا اس سے معیشت پر کوئی فرق پڑا، صرف کسانوں کے وقت فرق پڑتا ہے۔
ایکسپریس کی اکونومی پیج پر ایک اور خبر ہے۔ سرکاری بینکوں نے ریزرو بینک کو بتایا ہے کہ 51086کروڑ کا ایڈوانس لون فراڈ ہوا ہے۔ فراڈ کرنے والے بھی استاد ہیں۔ 51086کروڑ کا فراڈ ہو گیا، لگتا ہے کہ فراڈ کرنے کی بھی کوئی کمپنی بن گئی ہے۔
ہندوستان پریس کی آزادی کے معاملے میں دنیا میں نچلے پائیدان پر ہے۔ میڈیا کی ساکھ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں گری ہے اس کے بعد بھی بزنس اسٹینڈرڈ میں خبر ہے کہ ہندوستان میں میڈیا صنعت 12-11فیصد کی رفتار سے بڑھے?گی۔ لگتا ہے کہ کچھ لوگ بیکار میں کریڈیبلیٹی کے لئے مرے جاتے ہیں۔ عوام یاپڑھنے والے کو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا ہے شاید۔(مضمون نگار سینئر صحافی اور این ڈی ٹی وی کے اینکر پرسن ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باکس
۔ نرم ہندوتو کی پالیسی راجیو گاندھی کو ناکامی سے نہیں بچا سکی۔ یہی پالیسی کانگریسیوں کے مشورے کی وجہ سے راہل گاندھی بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہندو فرقہ پرستوں کی ٹولی الیکشن جیتنے کیلئے سب کچھ کرسکتی ہے۔ اگر کوئی پارٹی اسی راستہ پر جانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ہندوتو کی بڑی کامیابی ہے۔ وہ تو چاہتی ہے کہ سب لوگ ہندوتو کی پالیسی کو گلے لگالیں اور سب گرو گولوالکر کے چیلے ہوجائیں۔ اتر پردیش میں مسلمان اور ہندو کو الگ الگ کرکے ہندو ہندو کہہ کر بی جے پی نے ووٹ حاصل کئے اور جو کمی تھی ای وی ایم (الیکٹرونک ووٹنگ مشین) نے پوری کردی۔ اب گجرات میں ہندو اور غیر ہندو کی بحث شروع کرکے راہل اور ان کے پورے خاندان کو غیر ہندو قرار دیا جارہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوٹو دو

راہل گاندھی کو غیر ہندو بنانے کی کوشش
عبد العزیز
اتر پردیش میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے قبرستان اور سمسان گھاٹ کا شوشہ چھوڑا تھا جس کا مطلب تھا کہ سارے ہندو بی جے پی کے ساتھ ہوجائیں اور ہندو کے نام پر بی جے پی کو ووٹ مل جائے۔ فرقہ پرستوں کا یہ منصوبہ پوری طرح سے کامیاب ہوا۔ کامیابی کی خوشی میں اتر پردیش کی سب سے بڑی فرقہ پرستانہ ذہنیت والے شخص یوگی ادتیہ ناتھ کو یوپی جیسی سب سے بڑی ریاست (جس کی ا?بادی 22کروڑ ہے) کے وزیر اعلیٰ کی گدی پر بیٹھا دیا۔ یہ ا?ر ایس ایس کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔ پہلی کامیابی ا?ر ایس ایس کو اس وقت ملی تھی جب مودی جی جیسی پست ذہنیت رکھنے والے شخص کو ملک کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھادیا۔ اب اس وقت مودی جی کی ریاست میں انتخابی جنگ جاری ہے۔ گجرات میں بی جے پی 22سال سے حکومت کر رہی ہے۔ گجرات کے عوام و خواص میں بی جے پی کے کاموں اور کارگزاریوں خلاف سخت غصہ اور ناراضگی کی لہر ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی اس لہر کو دبانے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ اب راہل گاندھی ہی نہیں بلکہ پورے نہرو خاندان کو سوشل میڈیا میں ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ خاندان ہندوو?ں کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا خاندان ہے۔ فیروز گاندھی جو پارسی تھے، اندرا گاندھی کے شوہر تھے، ان کو بتایا جارہا ہے کہ فیروز گاندھی مسلمان تھے۔ راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی فیروز گاندھی کے بیٹے تھے۔ راہل گاندھی راجیو گاندھی کے بیٹے ہیں، اس لئے یہ بھی ہندو نہیں ہیں، غیر ہندو ہیں۔ راہل گاندھی سومناتھ مندر گئے تھے کہا جارہا ہے کہ وہاں انھوںنے اس رجسٹر میں دستخط کیاجو غیر ہندوو?ں کا رجسٹر ہے جبکہ سومناتھ مندر کے زائرین کیلئے صرف ایک ہی رجسٹر ہے۔ بی جے پی اپنی حکومت میں دو رجسٹر کرکے یہ بتا رہی ہے کہ غیر ہندو کا رجسٹر اس لئے ہے کہ دہشت گردوں کے حملے یا فتنہ و فساد سے مندر محفوظ رہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ سارے لوگ دہشت گرد ہوتے ہیں سوائے ہندو کے۔ کانگریس کو اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے تھا کہ ملک میں الیکشن ہندو، مسلمان یا کسی مذہب کے نام پر نہیں لڑا جارہا ہے۔ گزشتہ جنوری میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ اس امیدوار کا الیکشن باطل قرار دیا جائے گاجو مذہب، نسل، ذات پات، فرقہ اور زبان کی بنیاد پر لڑے گا، مگر کانگریس ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مدافعت (Defensive) ہوگئی۔ کانگریس کے راہل گاندھی کی ایک تصویر جنیو پہنے ہوئے ریلیز کی ہے جس کا مطلب ہے کہ راہل گاندھی ”جنیو دھاری ہندو“ ہیں۔ نرم ہندوتو (Soft Hindutva) کی پالیسی راجیو گاندھی نے بھی اپنائی تھی۔بابری مسجد کے قریب شیلا نیاس سے اپنے الیکشن پرچار کی ابتدا کی تھی۔ نرم ہندوتو کی پالیسی راجیو گاندھی کو ناکامی سے نہیں بچا سکی۔ یہی پالیسی کانگریسیوں کے مشورے کی وجہ سے راہل گاندھی بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہندو فرقہ پرستوں کی ٹولی الیکشن جیتنے کیلئے سب کچھ کرسکتی ہے۔ اگر کوئی پارٹی اسی راستہ پر جانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ہندوتو کی بڑی کامیابی ہے۔ وہ تو چاہتی ہے کہ سب لوگ ہندوتو کی پالیسی کو گلے لگالیں اور سب گرو گولوالکر کے چیلے ہوجائیں۔ اتر پردیش میں مسلمان اور ہندو کو الگ الگ کرکے ہندو ہندو کہہ کر بی جے پی نے ووٹ حاصل کئے اور جو کمی تھی ای وی ایم (الیکٹرونک ووٹنگ مشین) نے پوری کردی۔ اب گجرات میں ہندو اور غیر ہندو کی بحث شروع کرکے راہل اور ان کے پورے خاندان کو غیر ہندو قرار دیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے ایک انتہائی منہ پھت اور بے شرم ترجمان سَمبیت پاترا ہیں، وہ سوال کر رہے ہیں کہ راہل گاندھی بتائیںکہ وہ کیا ہیں؟ ان سے پوچھے کوئی کہ ا?پ کیا مذہب کے ٹھیکیدار ہیں کہ ا?پ کو سب ا?کر بتائے کہ وہ کس مذہب اور عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ امیت شاہ کا کہنا کہ راہل گاندھی دہلی کے مندروں میں کیوں نہیں جاتے۔ اسمرتی ایرانی فرما رہی ہیں کہ راہل گاندھی ووٹ لینے کیلئے ہندو بن رہے ہیں یعنی وہ ہندو نہیں ہیں۔ اسمرتی ایرانی ہندو ہیں اس لئے کہ وہ اپنے ماتھے پر ا?ر ایس ایس کو خوش کرنے کیلئے ٹیکا لگائے رہتی ہیں۔ اسمرتی ایرانی کے بارے میں جو ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل گشت کر دیا جارہا ہے وہ اس قدر عجیب غریب ہے کہ اسے لکھنا اور بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ ا?ج کل الیکشن کے میدان میں اس قدر گراوٹ ا?گئی ہے کہ ہر شریف ا?دمی اس میں قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ مگر بی جے پی وہ ساراکام انجام دے رہی ہے جس کا صرف دھرم، عقیدہ اور نسل پرستی سے تعلق ہے۔ قانون دانوںکی ٹیم کو نوٹس لینا چاہئے۔ بی جے پی اور ان کے لیڈران مودی اور شاہ جو کچھ ملک بھر میں کر رہے ہیں کیا وہ غیر قانونی اقدام نہیں ہے؟(مضمون نگار ملکی امور کے سینئر تجزیہ کار ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳
گجرات انتخابات گراﺅنڈ رپورٹ
مسلمانوں کو ہر پارٹی محض ووٹ سمجھتی ہے
امت سنگھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باکس
، ‘بی جے پی کی حکومت نے ریاست میں پوری طرح سے مسلمانوں کے وجود کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ بی جے پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت سکتی ہے۔ جب وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں اور مسلم علاقوں سے ہٹ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی ہے۔ اتناہی نہیں آپ دیکھیں?گے تو مسلم اکثریت علاقوں میں بہت سارے آزاد امیدوار کو بھی اتارا جاتا ہے۔ان کو تھوڑے پیسے کی لالچ دیا جاتا ہے اور یہ مضبوط مسلم امیدوار کا ووٹ کاٹنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر لوگ ہماری ہی کمیونٹی کے ہوتے ہیں۔ ‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات خاص طور سے سورت میں مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ یہ آپ کو ان کی اکثریت والے محلوں میں جانے سے نظر آ جائے?گا۔ سورت کے جس نان پورہ علاقے میں آپ کھڑے ہیں۔ یہ یہاں کے سب سے پرانے محلوں میں سے ہیں،لیکن ترقی یہاں سب سے بعد میں آتی ہے۔آپ بس صفائی، سڑک، بجلی، پانی کی حالت دیکھ لیجئے آپ کو مسلمانوں کی دقت سمجھ میں آ جائے?گی۔ ‘یہ باتیں ہمیں آصف خلیفہ نے بتائی۔ آصف میٹرک فیل ہیں اور کانٹریکٹ پر نوکری کرتے ہیں۔ سورت کے نان پورہ محلے کی گلیوں میں جب آپ گھسیں?گے تو یہ بےحد تنگ اور گندگی سے بھرے ہوئے ملیں گے۔ یہاں زیادہ تر کباڑی والے، گاڑیوں کے میکینک، فرنیچر اور کھانےپینے کی دکانیں ہیں۔ سڑکوں پر گریس، لکڑی کی چھیلن، مرغے مرغیوں کے پنکھ نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر گلیوں میں کیچڑ جمع رہتا ہے۔
باہر سے آئے صحافیوں کو دیکھ?کر لوگ گندگی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس علاقے میں لمبے وقت سے کانگریس سے جڑے رہے نوجوان لیڈر مقدر رنگونی اس بحث کو سڑک، صفائی، نالے سے آگے تعلیم اور نوکریوں تک لے جاتے ہیں۔ مقدر رنگونی کباڑ کا کام کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘صفائی کی حالت تو بری ہی ہے، تعلیم اور نوکریوں میں مسلمان کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ہمارے علاقے کے 60 فیصد سے زیادہ مسلمان بےروزگار ہیں۔ آپ کو تقریباً ہر گھر میں پڑھےلکھے بےروزگار مسلم نوجوان مل جائیں?گے۔ یہاں پر مسلمانوں کے ساتھ دوطرفہ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ زیادہ تر نجی کالجوں میں مسلم لڑکے لڑکیوں کو ایڈمیشن دینے میں بہانے بازی کی جاتی ہے تو وہیں ذاتی کمپنیوں میں تو پن کوڈ دیکھ?کر نوکریاں دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ‘مشرقی سورت کے سلم میں’ہندو ومسلم ایکتا سماج‘سے وابستہ مقدرآگے کہتے ہیں،’ہماری حکومت کو سورت میں مسلمان دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ نچلی سطح کی سرکاری نوکریوں میں بھی مسلمان بہت کم ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ سورت کے کسی بھی سرکاری آفس یا بڑے پرائیوٹ آفس میں مسلمان ایک فیصد سے زیادہ کام نہیں کرتے ہیں۔ تھک ہار?کر پڑھےلکھے نوجوانوں کو چھوٹاموٹا دھندا کرنا پڑتا ہے۔ ‘
کچھ ایسا ہی ماننا سورت کے کساڈ میں رہنے والے 70سالہ محمد وسیم کا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘بی جے پی کی حکومت نے ریاست میں پوری طرح سے مسلمانوں کے وجود کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ بی جے پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت سکتی ہے۔ جب وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں اور مسلم علاقوں سے ہٹ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی ہے۔ اتناہی نہیں آپ دیکھیں?گے تو مسلم اکثریت علاقوں میں بہت سارے آزاد امیدوار کو بھی اتارا جاتا ہے۔ان کو تھوڑے پیسے کی لالچ دیا جاتا ہے اور یہ مضبوط مسلم امیدوار کا ووٹ کاٹنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر لوگ ہماری ہی کمیونٹی کے ہوتے ہیں۔ ‘
فی الحال ان بیانات سے الگ اگر ہم ریاستی حکومت کے دعووں کی بات کریں تو وہ الگ کہانی کہتی ہے۔ گجرات میں اقلیتی مالی اور ترقی کارپوریشن کی مالی امدادی اسکیم کا 400کروڑ روپیے کا فنڈ ہے۔ اس کا مقصد اقلیتوں کے لئے چھوٹے کاروباروں اور خودکارروزگار کے لئے 3 لاکھ روپیے تک کی مالی امداد مہیّا کرانا ہے۔وہیں، بی جے پی اقلیتی مورچے کے ریاستی صدر صوفی محبوب علی چشتی کے مطابق، گجرات میں بی جے پی کے 200 سے زیادہ شہر ی کانسلر مسلم ہیں اور اس میں تقریباً 100 چیئرمین مسلم ہیں۔ حج پر جانے والے مسلمانوں کی سب سے زیادہ درخواست گجرات سے آتی ہیں۔ 2014 سے پہلے گجرات کا کوٹہ محض 4 ہزار تھا۔ 2014 میں جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو گجرات کے حج مسافرین کا کوٹہ ہرسال بڑھایا۔ گزشتہ تین سالوں میں یہ کوٹہ 4 ہزار سے بڑھ?کر 15 ہزار پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کی حالت ملک کے دوسرے مسلمانوں سے بہتر ہے۔گجرات کی سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی 9 فیصدی حصہ داری، گجرات پولیس میں 10.5 فیصدی مسلمان اور گجرات میں مسلمانوں کی خواندگی شرح 80 فیصدی ہے۔حالانکہ ان باتوں سے الگ سورت کے زیادہ تر مسلم شہری کانگریس کو ہی ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ اس میں سے بہتوں کا یہ دکھ ہے کہ کانگریس نے ان کے ووٹ کا استعمال کیا لیکن ان کے لئے کیا کچھ نہیں۔فی الحال اب جب کانگریس کےنائب صدر راہل گاندھی سافٹ ہندوتوا کی طرف قدم بڑھاکر گجرات کے تقریباً ہر مندر میں درشن کے لئے جا رہے ہیں تو یہ فکر اور بڑھ گئی ہے۔
سورت کے سینئر کانگریس رہنما سلیم بھائی کہتے ہیں،’گجرات میں مسلم بڑی تعداد میں کانگریس کو ووٹ کرتے ہیں۔ حزب مخالف میں ہونے کے باوجود مجھے اپنی پارٹی کانگریس سے یہ شکایت ہے کہ وہ مسلموں کے مسائل کو لےکے سڑک اور اسمبلی میں اتنی زور سے آواز نہیں اٹھاتی جتنی زورسے اس کو اٹھانا چاہئے۔ میرا ماننا ہے کہ اس پارٹی میں بھی کچھ پھول چھاپ کانگریسی آ گئے ہیں۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی ہندو ہیں وہ ہندو مندروں میں جائیں اس سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ بس وہ مسلمانوں کا خیال رکھیں یہی بہت ہے۔ لیکن فکر یہ ہے کہ ہماری ہی پارٹی کے پھول چھاپ لوگ ایسا نہیں چاہ رہے ہیں۔ اب مغربی سورت میں 18ہزار مسلمان ہیں وہاں مسلم امیدوار کو ٹکٹ ملا ہے جبکہ مشرقی سورت میں نوے ہزار ہیں اور یہاں ٹکٹ نہیں ملا ہے۔ یہ کانگریس کے ساتھ اصلی مسئلہ ہے۔ ‘
سورت میں ٹور اینڈ ٹریولس کا کاروبار کرنے والے ساجد جمال کہتے ہیں، ‘گجرات کا مسلمان بڑی تعداد میں کانگریس کو ووٹ کرتا ہے لیکن ابھی گجرات میں کانگریس کی حکومت نہیں ہے لیکن اگر حزب مخالف کے کردار میں دیکھیں تو کانگریس ہے۔ اس کے پاس چنے ہوئے نمائندہ ہیں لیکن وہ نمائندہ مسلمانوں کو ان کا حق دلا پانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ آپ پورا گجرات اگر ہندو مسلمان کے نظریے سے دیکھیں تو آپ کو جانبداری صاف نظر آئے?گی۔ میں اس کے لئے صرف بی جے پی کو ذمہ دار نہیں مانوں?گا۔ اس کے لئے کانگریس بھی اتنی ہی ذمہ دار ہیں۔ کئی بار لگتا ہے ہم کانگریس سے جو نمائندہ چن?کر بھیجتے ہیں وہ بھی ہمارے طریقے سے خیال نہیں رکھتے ہیں۔ وہ بھی بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ ‘
فی الحال گجرات میں گزشتہ 22 سال سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ سورت بلدیہ میں تو گزشتہ تیس سالوں سے بی جے پی کا تسلط ہے۔ شاید اس سبب زیادہ تر مسلم محلوں میں لوگ بی جے پی کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ایسے میں سپورٹ کے لئے مسلم ووٹروں کو کانگریس میں ہی امید نظر آ رہی تھی۔ حالانکہ ان کی فکر یہ بھی ہے کہ چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی، مسلمان ان کو شہری سے زیادہ ووٹر نظر آتا ہے۔پورے گجرات میں قریب 11 فیصد مسلم رائےدہندگان ہیں۔ لیکن اس بار ان کی حالت بےچینی بھری ہو گئی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو ان کے تحفظ اور ترقی کی گارنٹی دے سکے۔لوگ کانگریس اور بی جے پی سے ناراض ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے گجرات میں ایسا اختیار نہیں دیا ہے۔ فی الحال سورت کے مسلمان منجھدھار میں ہیں۔