’ فوج حکومتی نقطہ ¿نظر پر عمل پیرا‘ این آئی اے کارروائیاں اسی کا حصہ ،وادی کشمیر میں صورتحال بہتر ہوئی ہے: جنرل بپن راؤت بھات ، پاک مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ لینا سیاسی قیادت کا کام ، فوج اپنا کام کرے گی

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//وادی کشمیر میںفوج حکومت کے نقطہ نظر پر عمل پیرا ہے اور قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی چھاپہ مار کارروائیاں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ان خیالات کا اظہار فوج کے سربراہ جنرل وپن راؤت نےہفتہ کے روز یہاں سنجواں ملٹری سٹیشن پر ایک تقریب کے حاشئے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وادی میں سلامتی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور جو کچھ بھی ہورہا ہے ، اس سے جنگجوؤں کی بوکھلاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فوج کسی بھی طرح کے حالات کا سامنا کرنے کےلئے مکمل طور تیار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہندو پاک کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی کے لئے سیاسی سطح پر کوئی فیصلہ ہی لیاجائے گا۔ فوجی سربراہ نے کہا کہ فوج کا اپنا کام ہوتا ہے اور وہ اپنا کام بخوبی کرتے رہیں گے جب کہ بات چیت کا کوئی بھی فیصلہ سیاسی سطح پر لیا جانا ہے۔وادی میں قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے) کی کارروائیوں بارے جنرل راوَت نے کہا”کشمیر میں ہم مرکزی حکومت کے اپروچ کے مطابق چلتے ہیں اور این آئی اے کے چھاپے اس کا ایک حصہ ہیں جس میںکامیابی حاصل ہوئی ہے ، اس کے اثرات مستقبل میں نظر آئیں گے“۔ان کا کہنا تھا کہ جب سرکار کوئی اپروچ اختیار کرتی ہے تو تمام متعلقین کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔فوجی سربراہ نے مزید کہا” جموں کشمیر سمیت پوری دنیا میں انتہا پسندی دیکھنے کو مل رہی ہے اور بھارت اس کے ساتھ سنجیدگی سے نمٹ رہا ہے۔بنیاد پرستی ساری دنیا میں ہے اور یہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہورہی ہے لیکن اور ہم اس کا مقابلہ سنجیدگی کے ساتھ کررہے ہیں“۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت جموں کشمیر ، پولیس اور انتظامیہ اس بارے میں متفکر ہیںاور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کو انتہا پسندی سے دور رکھا جائے۔وادی کشمیر میں گیسو تراشی بارے جنرل بپن راوت نے ان واقعات کو ایک چیلنج ماننے سے انکار کیااور کہا کہ بہت جلد متعلقہ حکام اس کا خاتمہ کریں گے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ سرینگر میں بھی لوگ سڑکوں پر آرہے ہیں اور فوج اس چیلنج سے کس طرح نمٹ رہی ہے ؟توانہوں نے کہا”یہ معاملہ کئی دیگر ریاستوں کے بعد جموں کشمیر میں شروع ہوا، آپ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ یہ ایک چیلنج ہے،یہ کوئی چیلنج نہیں ہے بلکہ ایک معمول کا مسئلہ ہے، پولیس اس کی چھان بین کررہی ہے اور عنقریب اس کا خاتمہ ہوگا“۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور سول انتظامیہ اس مسئلے سے نمٹ رہی ہے۔سرحدپارکیمپوں میں تربیت بارے جنرل بپن نے کہا”کیمپ بدستور چل رہے ہیں اور اس میں ملی ٹینٹ کافی سرگرم ہیں“۔ انہوں نے کہاکہ سرجیکل سڑائیک عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کا ایک طریقہ تھا جب کہ اس کے علاوہ ان کا صفایا کرنے کے اور بھی طریقے ہیں اور ضروری کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ اوڑی اور نگروٹہ حملوں کی تحقیقات بارے جنرل راوت نے کہاکہ ”مناسب کارروائی کی جارہی ہے، قصور واروں کو سزا دی جارہی ہے اور اس معاملہ میں کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا“۔ لداخ خطہ میں ڈوکلام جیسی صورتحال سے محفوظ رہنے کے لئے 72انفینٹری ڈویژن کو متعارف کرنے بارے انہوں نے کہاکہ یہ ڈویژن 17ویں کارپس کا حصہ ہے اور اس کو طاقتو ر فو رس کے طور بنایاجارہا ہے۔ آپریشن سدبھاو¿نا پر جنرل راوت نے کہاکہ لوگوں کے دلوں وذہنوں کو جیتنا کاؤنٹر انسرجنسی حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس کے تحت کافی کامیابی حاصل کی گئی ہے ، بہت سے لوگ فوج کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل جنرل بپن راوت نے سنجواں ملٹری سٹیشن میں صدرجمہوریہ ہند کی طرف سے 47آرمرڈ رجمنٹ کو پریذیڈنٹ سٹینڈرڈ پیش کیا۔ اس موقع پر فوج کے سربراہ نے ’اسپیشل فسٹ ڈے کور‘بھی جاری کیا۔جنرل بپن کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیاگیاجس کے بعد انہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا۔پریڈ میں کئی فوجی دستوں نے شرکت کی جس میں ٹینک رجمنٹ کے T-72ٹینک بھی شامل کئے گئے تھے۔ اس موقع پر فوج سے سبکدوش ہونے والے کئی سنیئر افسران، معزز شخصیات کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی آر سونی، جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف ، ARTRAC، لیفٹیننٹ جنرل سریندر سنگھ، جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف ویسٹرن کمانڈ اور لیفٹیننٹ جنرل ڈی انبوہ ، جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف ناردرن کمان بھی اس موقع پر موجود تھے۔یاد رہے کہ فوجی سربراہ نے وزیر اعظم کے اچانک دورہ وادی سے ایک روز قبل سرینگر کا دورہ کر کے سینئر کمانڈروں کے ساتھ سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔انہوں نے وزیر اعظم کے ہمراہ گریز میں لائن آف کنٹرول پر تعینات فورسز اہلکاروں کے ساتھ دیوالی کا تہوار منایاتھا۔