جسٹس مدن بی لوکر نے اطفال انصاف نظام پر دو روزہ گول میز کانفرنس کا افتتاح کیا قانون کی عمل آوری سے منسلک ایجنسیوں کو طفلِ خطا کار کے ساتھ نمٹتے وقت مزید محتاط رہیں:چیف جسٹس مقررین کاجموںو کشمیر میں اطفال انصاف بورڈ ، چائلڈ کئیر انسٹی چیوٹوں کے فوری قیام پر زور

اڑان نیوز
سرینگر//بھارتیہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس مدن بی لوکر نے کل یہاں شیر کشمیر انٹر نیشنل کنونشن سنٹر میں جموں کشمیر جوانیلٔ جسٹس (کئیر اینڈ پروٹیشن آف چلڈرن )ایکٹ 2013 کی عمل آوری پر منعقدہ دو روزہ کانفرنس کا افتتاح کیا ۔ کانفرنس کا انعقاد بھارتیہ سپریم کورٹ کی جوانیلٔ جسٹس کمیٹی اور جموں کشمیر ہائی کورٹ کی جوانیلٔ جسٹس کمیٹی نے مشترکہ طور کیا ہے جبکہ اس کی معاونت یو این آئی ایس ای ایف کر رہا ہے ۔ اس موقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس لوکر نے جموں کشمیر جوانیلٔ جسٹس ایکٹر 2013 کی من و عن عمل آوری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تمام متعلقین کو قریبی تال میل سے کام کر کے جوانیل جسٹس بورڈ ، چائیلڈ ویلفئیر کمیٹیاں ، ایڈوایزری بورڈ اور ابزرویشن ہومز قایم کرنے کیلئے کہا جو کہ ایکٹ کی موثر عمل آوری کیلئے لازمی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بچے سماج کا مستقبل ہیں اور یہ سماج کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ جو بچے قانون سے متصادم ہوں ان کو کونسلنگ ، باز آباد کاری اور سماج کے ساتھ از سر نو ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔ جسٹس لوکر نے کہا کہ جے اینڈ کے جوانیلٔ جسٹس ( کئیر اینڈ پروٹیکشن آف چلڈرن ) ایکٹ 2013 اُن بچوں جنہیں نگہداشت اور تحفظ کی ضرورت ہو اور اُن بچوں کیلئے بھی جو قانون کے ساتھ متصادم ہوں کیلئے ایک موثر اور فعال قانونی لایحہ عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازوں اور نظامِ عدلیہ کا نقطہ نظر کا مقصد بچوں کی کمزوریوں کو دور کرنا اور اُن کی باز آباد کاری یقینی بنانا ہونا چاہئیے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ باز آباد کاری تصور کا مطلب یہ ہے کہ لوگ پیدایشی مجرم نہیں ہوتے ہیں اس لئے انہیں بحالی اور سماج کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقعہ فراہم کیا جانا چاہئیے ۔ سپریم کورٹ کے جج نے ایکٹ کی موثر عمل آوری کیلئے اس کی خامیوں کو دور کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ ابھی طفولیت میں ہے اور جموں کشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے جنہوں نے پہلے ہی اس نوعیت کے قوانین عمل میں لائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایکٹ اور قواعد و ضوابط کے تحت مطلوبہ بنیادی ڈھانچہ دستیاب ہو سکے تب اس میں کوئی شق نہیں کہ قانون کی عمل داری کرنے والے اہلکار معقول اصلاحی اقدامات کرنے کے اہل ہوں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوانیل جسٹس بورڈوں میں اہل اور خواہشمند جوڈیشل افسروں اور پیشہ ور سماجی کارکنوں کو نامزد کیا جائے تو قانون کے ساتھ متصادم اطفال کی باز آباد کاری کا ہمارا مشن کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔ جسٹس لوکر نے کہا کہ دو روزہ کانفرنس کے دوران ایکٹ کی موثر عمل آوری کے دوران پیش آنے والے معاملات و مسائل پر غور و خوض کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس ایکٹ کی بروقت اور موثر عمل آوری کیلئے ایک نقشہ راہ اور مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد دے گی ۔ جموں کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بدر دریز احمد نے اس موقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی عمل آوری کرنے والی ایجنسیوں کو جموں کشمیر میں طفل خطا کاروں سے نمٹتے وقت مزید محتاط اور حساس رویے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاست کے بچے نہایت ہی پُر تشدد ماحول میں پلے بڑے ہیں جس سے اُن کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما پر اثر پڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ طفل خطا کاروں سے نمٹنے والوں کو سمجھ بوجھ اور نہایت ہی حساس طریقہ کار اپنانا ہو گا ۔ اطفال کو انسانی تہذیب کی کلید اور اس کے مستقبل کے تقدیر ساز قرار دیتے ہوئے جموں کشمیر کے چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی سیاسی ، معاشی یا سماجی سوچ سے بالا تر بچوں کی بہبود کو اولین ترجیح اور اہمیت دی جانی چاہئیے ۔ چیف جسٹس نے ریاستی حکومت کو قانون سے متصادم طفل خطا کاروں کی باز آباد کاری کیلئے نہ صرف موثر اور باعمل اقدامات اٹھانے کیلئے کہا بلکہ طفل خطا کاروں کو قانون سے متصادم ہونے سے بچانے کیلئے بھی اقدامات اٹھانے کیلئے کہا ۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے تمام متعلقین کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اور ایک قابلِ عمل پھل کی نشاندہی کر کے زمینی سطح پر ٹھوس نتایج حاصل کرنے کیلئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے استقبالیہ خطاب میں جموں کشمیر جوانیل جسٹس بورڈ کے چئیر مین جسٹس علی محمد ماگرے نے کہا کہ اگرچہ ریاست میں جوانیل جسٹس ایکٹ ہے تا ہم ہم ابھی بھی اطفال دوست اداروں کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو قانون سے متصادم بچوں اور اُن بچوں جنہیں نگہداشت اور تحفظ کی ضرورت ہے کیلئے باعمل قانون سازی پر غور کرنا چاہئیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے مختلف اداروں بشمول جوانیل جسٹس بورڈ چائیلڈ کئیر انسٹی چیوٹوں ، سپیشل جوانیل جسٹس پولیس یونٹوں وغیرہ کے قیام کی اشد ضرورت ہے ۔ جسٹس ماگرے نے اپنی توقعات دو روزہ کانفرنس کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تمام متعلقین بالخصوص ریاستی محکموں میں بیداری پیدا ہو گی ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ریاست میں جوانیل جسٹس سسٹم کے تعاون کیلئے ایک طبعی لایحہ عمل کے قیام کیلئے ایک قوتِ ارادی ابھر کر سامنے آئے گی ۔ چیف چائیلڈ پروٹیکشن یو این آئی سی ای ایف انڈیا ، جاویر آگیولر نے افتتاحی اجلاس کے دوران کہا کہ وہ بچوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے موجودہ نظام کے تحت کام کرنے کیلئے پُر عزم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کو ہر قسم کی زیادتی ، استحصال ، غفلت ، امتیاز یا کسی اور قسم کے تشدد سے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یو این آئی سی ای ایف نے ریاستی حکومت ، عدلیہ ، اکیڈمیہ، سول سوسائیٹی اور دیگر متعلقین کے ساتھ مل کر ایک ادنیٰ سی شروعات کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے آئین اور دیگر خصوصی قوانین جن کا اطلاق ریاست پر ہے کے تحت بچوں کو انصاف ، خدمات اور مدد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ریاست میں ایک جامع اور ہم آہنگ نظام کے قیام کیلئے کوششیں جاری ہیں ۔ جموں و کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے ٹیکنیکل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں موثر جوانیل جسٹس نظام کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ طفل خطا کاروں کے ساتھ نمٹنے والے پولیس افسران کو بچوں کے ساتھ نمٹنے کیلئے خصوصی تربیت دی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ کی عمل آوری کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور 199 پولیس سٹیشنوں میں سپیشل جوانیل پولیس یونٹ قایم کئے جا رہے ہیں جن کے انچارج ڈسٹرکٹ سپرنٹینڈنٹ پولیس ہوں گے جبکہ ہر ضلع میں یونٹ کی سربراہی ایک انسپکٹر کرے گا ۔ جسمانی طور ناخیز افراد کیلئے کمشنر محمد اقبال لون نے بھی اس موقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ کانفرنس میں جموں کشمیر ہائی کورٹ کے جج بشمول جسٹس آر سدھاکر ، جسٹس محمد یعقوب میر ، جسٹس آلوک ارادھے ، جسٹس ڈی ایس ٹھاکر ، جسٹس تاشی ربستان ، جسٹس جنک راج کوتوال ، جسٹس بی ایل والیہ ، جسٹس سنجیو کمار ، جسٹس ایم کے ہانجورہ اور جسٹس سنجے کمار گپتا ، سبارڈینیٹ کورٹوں کے ججوں کے علاوہ سیکرٹری لاء ، سپیشل ڈی جی پی وی کے سنگھ ، مختلف یونیورسٹیوں ، لاء سکولوں کے ماہرین ، پولیس افسران ، سماجی کارکن اور رضا کار کانفرنس میں موجود تھے ۔