انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی افسر ’اغوا‘ کے بعد قتل

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھیں انڈین فوج کے ایک افسر کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی ہے۔

حکام نے بتایا ہے کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ عمر فیاض نامی یہ نوجوان دراصل انڈین فوج کی یونٹ راجپوتانہ رائفلز کے وابستہ لیفٹینٹ تھے جو لائن آف کنٹرول کے حساس سیکڑ اکھنور میں تعینات تھے۔

٭ کشمیر:فوجی کیمپ پر حملے میں تین انڈین فوجی ہلاک

فوجی ترجمان کرنل راجیش کالیا کے مطابق عمر فیاض کولگام کے یاری پورہ گاؤں کے رہنے والے ہیں اور چند دن قبل وہ قریبی ضلع شوپیاں میں ایک رشتہ دار کی شادی کی تقریب میں شمولیت کے لیے رخصت پر گئے تھے۔

ترجمان کے مطابق لیفٹیننٹ عمر کو اغوا کر کے قتل کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘ایک نہتے فوجی افسر کا قتل قابل مذمت ہے۔ فوج انھیں سلام پیش کرتی ہے اور پرعزم ہے کہ ان کے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لائے گی۔’

ابھی تک کسی بھی مسلح گروپ نے کشمیری فوجی افسر کے اغوا یا ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم جنوبی کشمیر میں مسلح تشدد کی بڑھتی وارداتوں پر فوج اور پولیس نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پولیس کے انسپکڑ جنرل ایس جے ایم گیلانی نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی کشمیر میں ایک سو کے قریب مسلح شدت پسند سرگرم ہیں جو فوج اور پولیس پر حملے کر رہے ہیں۔

واضح رہے سرینگر میں پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے نو اپریل کو ہوئے ضمنی انتخابات کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔

اس دوران مسلح حملوں اور مظاہروں کی شدت میں اضافہ کے بعد جنوبی کشمیرمیں پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے مجوزہ ضمنی انتخابات غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیے گئے ہیں۔گذشتہ ہفتے بھی جنوبی کشمیر میں مسلح حملے میں پانچ پولیس اہلکار اور دو بینک گارڑ مارے گئے جبکہ لائن آف کنٹرول کے قریبی ضلع کپوارہ میں پنزگام فوجی کیمپ پر جمعرات کو علی الصبح مسلح شدت پسندوں نے ‘خود کش’حملہ کیا جس میں ایک افسر سمیت تین فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں دو حملہ آور مارے گئے۔گذشتہ برس بھی جولائی میں نوجوان عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی تصادم میںہلاکت کے بعد ایسی ہی تحریک چلی جو کئی ماہ تک جاری رہی۔ لیکن ستمبر میں اُوڑی کیمپ پر مسلح حملے میں 19فوجیوں کی ہلاکت کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی تھی۔