پردیش کانگریس میں’ ایس آر او 43‘کا چلن، خاندانی راج وخویش پروری کی شکایات !

1
پردیش کانگریس میں’ ایس آر او 43‘کا چلن، خاندانی راج وخویش پروری کی شکایات !
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//کانگریس پالیسی ساز گروپ سابقہ وزیر خزانہ وداخلہ امور پی چدمبرم کی قیادت میں اِ ن دنوں لداخ کے تفصیلی دورہ پر ہے، جہاں پرپارٹی ورکروں ولیڈران سے ملاقات کر کے ان سے ریاست جموں وکشمیر کی موجودہ سیاسی، اقتصادی، ترقیاتی، معاشی صورتحال پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ساتھ ہی پارٹی کے اندر پائی جارہی خامیوں کا احاطہ کر کے اُن کا ازالہ بھی کرنا شامل ہے۔ پارٹی کے اندرونی معتبرذرائع نے بتایاکہ کانگریس کی اعلیٰ اختیاری پالیسی ساز گروپ کو یہ سب اس لئے کرنا پڑ رہاہے کیونکہ جموں وکشمیر میں پارٹی کی پوزیشن سے متعلق کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔کئی اسباب خاص طور سے اندرونی رسہ کشی کی وجہ سے پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا۔کنبہ پروری، حویش پروری اور خاندانی راج کا اثر کانگریس پارٹی بھی گہرا پڑا ہے جس وجہ سے صحیح معنوں میں عوامی لیڈر، سرگرم رکن اور زمینی سطح ُپر پارٹی کے لئے کام کرنے والے ورکر گھبراہٹ سی محسوس کر رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر پردیش کانگریس کمیٹی، ضلع کانگریس کمیٹی، یوتھ کانگریس، نیشنل سٹوڈنٹس یونین آف انڈیا اور ٹریڈ یونین انٹیک ، سیوال دل کے علاوہ پارٹی کے مختلف شعبہ جات(سیلوں) وغیرہ میں اہم عہدوں پر تقرریاں عمل میں لاتے وقت اُن لیڈران جوکہ زمینی سطح سے جڑے ہیں، جوکہ پارٹی کے لئے محنت کر رہے ہیں، جن کے ساتھ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہے،اُن کو اہمیت نہیں مل رہی۔ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر محنتی، تندہی ، خلوص نیت سے کام کرنے والے ورکروں کی قدر دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور مداح سرائی، قصیدہ گوئی، چمچہ گیری کرنے والے اور پارٹی لیڈرشپ کی صبح وشام جی حضور ی کرنے والوں کو اہمیت بھی ملتی ہے اور اہم عہدوں پر تقرری بھی کی جاتی ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں میں کانگریس سے وابستہ متعدد وکلاءحضرات جوکہ پارٹی میںاہم عہدوں پرفائض بھی ہیں یا رہے ہیں، کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی جموں وکشمیر ریاست میں اس وقت حاشیئے پر ہے،وجہ یہ کہ خاندانی راج کو فروغ دیاجارہاہے، پارٹی کے سنیئرلیڈران اپنی اولاد، اہل خانہ ، رشتہ داروں کو ہی اہم عہدوں پر فائض کر رہے ہیں جبکہ بیشتر ان میں سے ایسے ہیں جوکہ اس کے مستحق نہیں۔اس عمل سے پارٹی سے جڑے ورکر جوحقیقی معنوں میں کام کر رہے ہیں، زمینی سطح ُپر پارٹی کا پیغام عام لوگوں تک پہنچارہے ہیں، اُن کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ۔پارٹی کی اہم میٹنگوں اور پروگراموں کے انعقاد میں عام ورکروں کا ہاتھ زیادہ ہوتاہے لیکن اہمیت اُن لیڈران کو ملتی ہے جن کے لئے درجن بھر ورکرز جمع کرنامشکل ترین عمل ہے۔ پارٹی میں مرکزی، ریاستی وصوبائی سطح کے عہدادران میں ایسے بھی لیڈران شامل ہیں، جن کی اپنے ہی گھر میں کوئی پہچان نہیں۔جب وہ اپنے آبائی گاو¿ں جاتے ہیں ،کوئی ان کے پاس تک نہیں آتا۔ایک وکیل کا کہنا تھاکہ ”کانگریس پارٹی میں ایس آر او43کا چلن ہے ، جس کے تحت باپ گیا تو بیٹا آتا، بیٹا گیا تو پوتا آیا، کا عمل جاری ہے۔وہ ورکرز، لیڈران جوکہ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، جن کے اندر خلوص ہے، ان کے ساتھ عوامی حمایت بھی ہے، انہیں موقع نہیں ملتا۔کانگریس کی ریاست جموں وکشمیر کے اندر موجودہ صورتحال بارے چل رہی بحث کے دوران ایک وکیل نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا”پارٹی میں ریاستی ، صوبائی، ضلع اور بلاک سطح پرعہدوں کی تقرریاں عمل میں لاتے وقت کم سے کم کچھ تو اصول وضوابط اپنائے جانے چاہئے، جیسے کہ جس لیڈر کو آپ عہدہ دے رہے ہو، اس کی اپنے علاقہ میں عوام کے اندر کتنی پکڑ ہے، وہ لوگوں سے کتنا جڑا ہے، آج تک کون کون سے مسائل ومطالبات حل کرانے میں اُس نے کیا رول ادا کیا، کتنی عوامی میٹنگیں، جلسے کئے“۔وہ مزید کہتے ہیں کہ”کم سے کم عہدے دینے سے قبل کچھ مدت بھی ہونی چاہئے ، کہ یہ کتنے عرصہ سے پارٹی کے ساتھ ہے اور کیا کیاکام کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست کے اندر اتنا زیادہ سیاسی خلاءہونے کی باوجود کانگریس عوام میں مقبول نہیں، نہ ہی پارٹی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جمہوری نظام ِ حکومت پر لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کی بحالی کے لئے رول ادا کرسکے۔کشمیر اور جموں کے کانگریس لیڈران میں آپسی اختلافات ہیں۔ایک ہی حلقہ کے متعدد لیڈران بھی کوئی ربط نہیں،آپسی تال میل کا فقدان ہے، ایک کچھ کرنا چاہتا ہے تو دوسرا اس کی اس کوشش کو ناکام بنانے میں جٹ جاتاہے۔ٹیم ورک کی کمی ہے۔پارٹی کے ایک یوتھ لیڈر جوپیشہ سے وکیل بھی ہیں، نے ایک دو مرتبہ جوکوئی لیڈر الیکشن لڑ لیتا ہے تو پھر وہ متعلقہ اسمبلی حلقہ کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھتا ہے اور اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ آخری دم تک وہی یہاں سے الیکشن لڑے، پھر یہ ٹکٹ اس کے بیٹے کو ملے، یہ تو راجہ مہاراجہ کے شاہی دور حکومت جیسا ہی ہے، پہلے ریاستی سطح پر شاہی راج ہوتا تھا اب اسمبلی حلقہ سطح پر ہے، ایک بار جوجیتا پھر چاہئے وہ کچھ بھی کرے اس کی کوشش پارٹی پر اجاراہ داری قائم کر کے ہی رکھنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اہلیت، قابلیت کی بنا پر ہر ایک کو موقع ملنا چاہئے ، اس سے لوگوں کی توقعات پر کھرا بھی اترا جاسکتا ہے اور پارٹی کی جڑی بھی بنیادی سطح پر مضبوط رہیں گیں۔اب یہ ساری باتیں کانگریس کے حوالہ سے کتنی سچ یا جھوٹ ہیں یہ تو پارٹی قیاد ت ہی بہتر جانتی اور بتاسکتی ہے ۔