بے لگام لال ،ذہنی علاج کی ضرورت!

بے لگام لال ،ذہنی علاج کی ضرورت!
متنازعہ بیانات کے لئے مشہور بی جے پی کے ایم ایل اے چوہدری لال سنگھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی کی وجہ سے دن بدن بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔موصوف جوکہ پہلے کانگریس پارٹی کا حصہ تھے،جہاں سے وہ سال 2002تا2008تک پی ڈی پی۔ کانگریس مخلوط محکومت میں وزیر صحت رہے، 2009سے2014تک کانگریس ہی کی ٹکٹ پر ڈوڈہ۔اودھم پور حلقہ سے رکن پارلیمان بھی رہے، ان دِنوں ایکبار پھر متنازعہ بیان کی وجہ سے چرچا میں ہیں۔اب کی بار انہوں نے صحافیوں کو دھمکی دی ہے جس سے صحافتی برادری میں کافی تشویش کی لہر پائی جارہی ہے۔ مئی 2016میں جب لال سنگھ جنگلات وماحولیات کے وزیر تھے، تو ان سے گوجر بکروال طبقہ کے کچھ لوگ اپنی فریاد لیکر ملنے گئے جہاں موصوف نے یہ دھمکی دی کہ آپ1947والی صوتحال بھول گئے، وہ حشر ہوگا۔اس پر ریاست بھر میں وبال کھڑا ہوا، بعد میں لال سنگھ نے صفائی پیش کی کہ انہوں نے 1947کی نہیں بلکہ47ڈگری درجہ حرارت کی بات کی تھی۔جنوری2018میں ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرانگر کے رسانہ میں آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری اور قتل کا معاملہ سامنے آیاتو ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کی طرف سے دورانِ تحقیقات برتی گئی سختی کے خلاف ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم بنی، جس کے بینر تلے معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کرانے کا مطالبہ شروع کیا۔ اس ایجی ٹیشن نے کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ چوہدری لال سنگھ بطور وزیر جنگلات حالات کو قابو کرنے کی بجائے ریلی میں شرکت کر کے جلتی پر آگ کا کام کیا اور لوگوں کے جذبات مزید بھڑکانہ شروع کردیئے۔بعد ازاں اسی وجہ سے انہیں وزارت کی کرسی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔موصوف نے وزارتی کونسل سے باہر نکالے جانے پر رسانہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کے لئے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کر دیا۔ پریس کانفرنس، احتجاجی دھرنوں، بیانات دینے شروع کر دیئے ۔ ڈوگروں کی آن بان اور شان کی بات کہہ کر لوگوں کے جذبات کو اکسا کر خوب حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ڈوگرہ سوابھیمان نام سے ایک ریلی نکالی جس میںان کے بھائی راجندر سنگھ عرف ببی نے سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف انتہائی فحاش اور ناشائستہ الفاظ کا استعمال کیا، ان پر مقدمہ درج ہو ا جوکہ کافی عرصہ تک مفرور رہنے کے بعد اپ پولیس کی گرفت میں ہیں۔چوہدری لال سنگھ نے 23جون 2018کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کشمیر ی صحافیوں کو اپنی حد میں رہنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کٹھوعہ آبروریزی اور سینئر صحافی شجاعت بخاری کے قتل کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں کو اپنی حد کا خیال ہونا چاہئے۔ سنگھ نے کہا”تو اس لئے اپنی حد طے کریں ، تاکہ بھائی چارہ بنا رہے“۔ خیال رہے کہ رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کا تین بائیک سواروں نے 14 جون کو آفس کے باہر گولی مار کر قتل کردیا تھا۔غور طلب ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب سنگھ نے تنازع کو ہوا دی ہے۔پی ڈی پی – بی جے پی حکومت میں وزیر رہ چکے لال سنگھ اپریل میں کٹھوعہ آبروریزی اور قتل کے ملزموں کی حمایت میں ہوئی ریلی میں بھی شامل ہوئے تھے، جس کے بعد ان سے استعفی لے لیا گیا تھا۔صحافیوں کامطالبہ ہے کہ بی جے پی لیڈر کی کھلے عام دھمکیوں کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے۔ اس سے پہلے لال سنگھ صحافیوں پر الزام لگا چکے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہی انہیں وزیر کے عہدہ سے استعفی دینا پڑا۔لال سنگھ کے اس بیان کی سیاسی لیڈروں نے سخت تنقید کی ۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ’ڈیئر جرنلسٹس، کشمیر میں آپ کے ساتھیوں کو ابھی بھی بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی نے دھمکی دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شجاعت کی ہلاکت اب غنڈوں کے لئے ایک ایسا ہتھیار ہے ، جس کو وہ صحافیوں کو ڈرانے کے لئے استعمال کررہے ہیں‘۔کشمیر میںصحافیوں کی تنظیم کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما لال سنگھ کی طرف سے کشمیری صحافیوں کے خلاف دھمکی آمیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مجرمانہ فعل قرار دیا ۔ ا یڈیٹرس گلڈ نے کہاکہ لال سنگھ کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہیں شجاعت بخاری کے قتل کے بارے میں کچھ معلومات ہیںاور اس سلسلے میں ان سے تفتیش کی جانی چاہیے۔ کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے کہا کہ وہ لال سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ لال سنگھ نے بظاہر کشمیر میڈیا اور سرینگر میں حالیہ قتل پر ممکنہ معلومات سے متعلق بات کی ہے۔یاد رہے کہ یہ وہی لال سنگھ ہیں کہ 2014لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران ایک جگہ وزیر اعظم ہندنریندر مودی کو ایک جانور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہاتھاکہ ہم تو گھروں میں اس جانور کو اچھی نسل دیکھ کر رکھتے ہیں، اس بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ، کچھ عرصہ بعد اسی لال سنگھ نے کانگریس سے کنارہ کشی کر کے بی جے پی کا دامن تھام لیاتھا۔چوہدری لال سنگھ جیسے بے لگام سیاستدان ملک، ریاست اور سماج کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ قانون سب کے لئے برابر ہے، اگر کوئی بھی شہری اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کارروائی ہونی چاہئے، مگر لال سنگھ لگاتار اس طرح کے متنازعہ بیانات اورحرکتیں کرتے آرہے ہیں جن کے خلاف کوئی بھول کر راضی نہیں۔ ایسا نہ کرنے سے سیاست میں شامل غنڈہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور انہیں بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ہمت مل رہی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ قانون کی یکساں عمل آوری کو یقینی بناکر سماج میں انتشار پھیلانے والے ایسے عناصر پر لگام کسی جائے اور ان کے ذہنی علاج کو بھی یقینی بنایاجائے۔