پہاڑی ریزرویشن بل راج بھون میں بھی سیاست کا شکار

پہاڑی ریزرویشن بل راج بھون میں بھی سیاست کا شکار
کیاگورنر جموں وکشمیر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؟
حکومت کو دفعہ78کے تحت قانون پر عمل در آمد کیلئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار :قانونی ماہرین
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاست جموں وکشمیر میں پہاڑی قبیلہ کو3فیصدریزرویشن دینے سے متعلق قانون راج بھون میں بھی سیاست کا شکار ہوکر رہ گیاہے۔فروری2018کو بالترتیب قانون سازیہ کے دونواں ایوانوں سے پہاڑی قبیلہ کو ریزرویشن دینے سے متعلق ترمیمی بل2014پاس کر کے گورنر کے پاس منظوری کے لئے بھیجاگیاتھا۔3ماہ اور20دن گذر گئے ہیں کہ ابھی تک گورنر نے اس بل کو منظوری نہیں دی جبکہ وہ قانون کے تحت مذکورہ بل کو فوری طور منظوری دینے کے پابند ہیں۔منظوری میں کی گئی غیرضروری تاخیرپر پہاڑی قبیلہ کے لوگوں نے سخت ناراضگی پائی جاتی ہے جن کا الزام ہے کہ راج بھون بھی سیاست کا شکار ہوگیا ہے جوکہ بد قسمت آمیز ہے۔ان کا کہنا ہے کہ فروری 2018میں جب قانون دونوں ایوانوں سے دوبارہ پاس ہونے کے بعد گورنر کے پاس گیاتواسی ماہ پہاڑی قبیلہ کے مخالفین نے ’آل جموں وکشمیر بیکورڈ کلاس یونین‘نام سے ایک چھٹی گورنر کو لکھی جس میں قانون پر اعتراضات ظاہر کئے گئے۔ گورنر نے اپنا مائنڈ اپلائی کئے بغیر اس چھٹی سے متاثر ہوکر ، چھٹی کے سارے مواد کو ’Copy Paste‘کر کے اعتراضات کا پلندہ تیار کر کے ریاستی سرکار کو بذریعہ چیف سیکریٹری بھیج دیا جبکہ جموں وکشمیر آئین گورنر کو ایسا کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔جموں وکشمیر آئین کی دفعہ 78” مسودہ قوانین کی منظوری“میں واضح ہے کہ ’….’ جب کوئی مسودہ قانون، قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوجائے تو یہ گورنر کو پیش کیاجائے گا اور گورنر قرار دے گا کہ اِس نے مسودہ قانون کی یاتو منظوری دی ہے یا یہ کہ اس کی منظوری روک لی ہے:لیکن شرط یہ ہے کہ گورنر مسودہ قانون اس کے پاس منظور کے لئے پیش ہونے کے بعد’جس قدر جلد ہوسکے گا اس مسودہ قانون کو، اگر وہ رقمی مسودہ قانون نہ ہو، ایک پیغام کے ساتھ ایوانوں میں واپس کرے گا جس میں درخواست ہوگی کہ وہ اس مسودہ قانون پر یا اس میں مصرحہ توضیعات پر دوبارہ غورکریں اور خاص طور پر اس پر غور کریں کہ ایسی ترمیمات جن کی وہ اپنے پیغام میں سفارش کرے اس قابل ہیں کہ انہیں پیش کیاجائے اور جب کوئی مسودہ قانون اس طرح واپس ہوتو دونوں ایوان حسبہ، اس مسودہ قانون پر دوبار غوکریں گے اور اگر وہ مسودہ قانون ایوان سے ترمیم کے ساتھ یا بلاترمیم دوبارہ منظور ہوجائے اور گورنر کے پاس منظوری کے لئے پیش ہوتو گورنر اس کی منظوری نہیں روکے گا“…. گورنر نے دوبارہ سے بل پر جو اعتراضات ظاہر کئے تو اس وقت کے وزیر قانون وانصاف حق خان نے تفصیلی جوابات دیئے۔پہاڑی قبیلہ سے وابستہ موجودہ وسابقہ اراکین قانون سازیہ کا وفد گورنر سے ملا، ان کے شکوب وشبہات دور کئے لیکن اس سب کے باوجود گورنر بل پر منظوری دینے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لے رہا ہے جس کی آئین اس کو اجازت نہیں دیتا۔پہاڑی بل کے تئیں متعصبانہ رویہ سے گورنر سیکریٹریٹ کی اعتمادیت پر بھی سوال اُٹھائے جارہے ہیں۔پہاڑی قبیلہ کے سماجی وسیاسی لیڈران کا کہنا ہے 26دسمبر1993کو جموں وکشمیر کے گورنر کے وی کرشنہ راو¿ نے سرکاری طور مرکزی وزیر برائے سماجی بہبود سیتا رام کیسری کو مکتوب لکھا جس میں پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کرنے کی پرزور سفارش کی تھی لیکن موجودہ گورنر بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ چندمفاد پرست عناصر سے متاثرہوکرپہاڑی قبیلہ کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں بلکہ اس کے لئے انہوں نے آئین کی خلاف ورزی تک کرنا گوراہ کر لی ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنرنے دوبارہ جب بل پر اعتراضات ظاہر کئے تھے تو تب حکومت ان کا جواب دینے کی آئین کے تحت قطعی پابند نہ ہے اور نہ گورنر کو آئین یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دوبارہ بل پر اعتراض ظاہر کرے ۔گورنر نے ایسا کر کے قانون سازیہ کے اعتمادیت، وقار کو چیلنج کیا ہے جوکہ افسوس کن ہے۔سابقہ قانون ساز کونسل اور ہائی کورٹ کے وکیل مرتضیٰ خان نے اس پوری صورتحال کے آئینی پہلوپر بات کرتے ہوئے کہاکہ ”پہاڑی ریزرویشن بل پر گورنرکے غیر آئینی اعتراضات پر’لولیٹر‘لکھنے کے بجائے حکومت آئین کی دفعہ 78 کے تحت نوٹیفیکیشن جاری کرے“۔ انہوں نے کہاکہ ”دفعہ 78 کے تحت گورنر کسی ایسے بل پر اعتراض نہیں لگا سکتا جس سے اسمبلی نے پہلی بار لگائے گئے اعتراصات کا ازالہ کر کے یا کئے بغیر دوبارہ پاس کر کے گورنر کی منظور کے لئے بھیجا ہو جیسا کہ پہاڑی ریزرویشن بل نمبر 18 کیساتھ ہوا تھا۔ اس بل کو 2014 میں اسمبلی نے پاس کر کے گورنر کی منظوری کیلئے بھیجا تھا مگر گورنر نے اس پر اعتراضات لگائے جنہیں دور کر کے اس اسمبلی نے دوبارہ اسے گورنر کو ارسال کیا تھا لیکن گورنر نے پھر سے اعتراضات لگائے ہیں جو کہ آئین کے خلاف ہے“۔انہوں نے مزید کہاکہ اگر گورنر منظوری نہیں دیتا تو حکومت مجاز ہے کہ وہ از خود بل کی از خود منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کرئے جیساوہ کرنے کی آئین کے تحت پابند ہے۔ پہاڑی قبیلہ کے ادیب ، شاعر اور تبصرہ نگار نصار راہی نے بھی اس صورتحال پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اور دیگر دستخطی ادارہ کے درمیان ڈرامہ کھیلا جارہاہے، اصل میں حکومت پہاڑی کاز کے تئیں بے حس ہے۔ یہ انتہاہے کہ پہاڑیوں کو بھکاری تصور کیاجارہاہے،ریاستی کابینہ میں ایک ہی پہاڑی منسٹر تھا، اس کو بھی نکال دیاگیا، ابھی بہت کچھ پہاڑیوں کے ساتھ ایسا ہوناباقی ہے، جب تک انہیں اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہوتااور وہ متحد ہوکر لڑائی نہیں لڑتے۔