جموں وکشمیر کے سرکاری اساتذہ کا درد وغم

جموں وکشمیر کے سرکاری اساتذہ کا درد وغم
بھلا ہمارا قصور کیا…………….؟
الطاف حسین جنجوعہ
”میں نے اپنے بچے کوکرائس اسکول میں ڈالا ہے، اس کے بعدچار سے سات بجے تک ٹیوشن جاتاہے، واپس آکر تھک ہار جاتاہے،کھیلنے کاوقت نہیں ملتا، صبح مارننگ واک کرنے بھیجتی ہوں۔اچھے نمبرات لے لے تو اس کو ایم بی بی ایس یا آئی آئی ٹی کے لئے انٹرنس دلواو¿ں گی۔ہمارا گاو¿ں میں اچھامکان ہے، تحصیل اور ضلع صدر مقام پر بھی اللہ کے فضل سے بنایا ہے، اب سوچ رہے ہیں کہ جموں میں بھی ایک مکان بنوا لیں، زمین خرید لی ہے، بس تعمیرکرنا باقی ہے۔ساتواں تنخواہ کمیشن لاگو ہوجاتا توتنخواہ میں کافی بڑھوتری ہوتی، چلو مکان جلدی بن جاتا، ابھی ایک اور گاڑی بھی لینی ہے“۔ان باتوں کا اظہار پونچھ ضلع کے دور دراز گاو¿ں میں واقع ایک سرکاری اسکول میں ایک خاتون ٹیچر ایکدوسرے ٹیچر کے ساتھ کر رہی تھیں۔ دن کے 12:30بج چکے ہیں، محترمہ بمشکل 11:45بجے اسکول پہنچیں۔ کافی دیر سے بیٹھ کر آرام فرمانے کے بعدوٹس ایپ پر آئے سبھی Messagesکو بغور پڑھا، فیس بک اسٹیٹس دیکھاکہ ساتھی، دوست واحباب وغیرہ نے کیاکچھ تازہ اپ ڈیٹ کیا ہے۔ یہ سب کرنے کے بعد اب موقع ملا ہے کہ اپنی گھریلو مشکلات اور امور ساتھی ٹیچر کے ساتھ سانجھے کئے جائیں۔ کچھ دوری پر اسکولی بچے بیٹھے اس بات کا انتظارکر رہے ہیں کہ کب خاتون ٹیچر ان کو پڑھائے، وہ میڈم کی باتوں سے کافی متاثر ہورہے ہیں کہ ماشا اللہ ان کے بچے تو کافی اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، کاش ہمیں بھی ایسی تعلیم ملتی۔ باتیں جاری تھیں، اس دوران اسکول میںآدھی چھٹی(Recess)کی گھنٹی بجادی گئی، سارے بچے کھیل کود میں مصروف ہوگئے، باتوںکا یہ عمل جاری رہا، ایک دوسرے ٹیچر نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہاکہ ”میڈم جی میرے بجے جموں میں ایس پی سمارٹ اسکول میں پڑھتے ہیں،بڑی مشکل میں جان پھنس گئی ہے، ان بچوں کا خیال کون رکھے، اب یہاں اسکول میں حاضری دینے آنا پڑھتا ہے، یہ توچلو آپ کی ذرا نوازی ہے کہ ایک ماہ کے اندر میں دو ہفتے آتا ہوں ، باقی جموں رہتا ہوں اور آپ میری حاضری کا بھرپور خیال رکھتے ہو، مگر اب سختی ہورہی ہے، کب تک ایسا چلے گا۔ایم ایل اے صاحب سے بات کی، منسٹر تک بھی رجوع کیا ہے کہ چلو جو بھی پیسہ لگے لے لو، میری ٹرانسفر جموں شہر یا اس کے آس پاس کہیں کردو تاکہ میں اپنے بچوں کے بہترمستقبل کو یقینی بناسکوں، میرا ہردم خیال اپنے بچوں کی طرف رہتا ہے، بیچارے کتنی دیر سے اسکول سے آتے ہوں گے، کھانا بھی وقت پر کھاتے ہوں گے یا نہیں“۔اساتذہ باتوں میں اتنے مگن ہوگئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ اسکول کی چھٹی کا وقت آگیا۔ سبھی نے اپنے اپنے گھر جانے کی تیار کی۔ راجوری اور پونچھ اضلاع بالخصوص اور دیگرریاست بھر کے اضلاع کے سرکاری اسکولوں کا یہی حال ہے۔ پیر پنچال کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ وہاں کا راقم کوذاتی تجربہ ہے، اس کا ۔روزانہ سرکاری اسکولوں میں سبھی اساتذہ آجائیں یہ ہونہیں سکتا، کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے جس دن زیڈ ای او یا سی ای او دفتر سے پختہ خبر مل گئی ہوکہ آج آپ کے علاقہ کا معائنہ کرنے ٹیم آرہی ہے کیونکہ زونل ایجوکیشن دفتر اور چیف ایجوکیشن دفتر کے ساتھ ساتھ ضلع صدر مقام پر اپنے خیرخواہ موجود ہیں، جووقت پر اطلاع کر دیتے ہیں ۔عموماًباری بار ی ٹیچرز سرکاری اسکولوں میں آتے ہیں۔ اس بات کی بھی باری ہوتی ہے کہ آپ کل صبح جلدی پہنچ جانا، وہاں جاکر سنبھالا، ہم دو تین گھنٹے تاخیر سے پہنچیں گے۔دیہات اور دور دراز علاقہ جات میں جتنے سرکاری اسکول ہیں، اس میں زیادہ تر جوملازمین جوسیاسی اثر رسوخ رکھتے ہیں، یا پھر ان کے اہل خانہ، دوست واحباب میں سے کوئی بیروکریٹ ہے، وہ باآسانی اپنی اٹیچ منٹیں تحصیل وضلع صدر مقامات پرقائم کسی اسکول میں کروا لیتے ہیں، شہروں وقصبہ جات میں رہنے والے اساتذہ کی زیادہ کوشش رہتی ہے کہ سڑک کے کنارے واقعہ اسکولوں میں تعیناتی ہوجائے۔کچھ ماشا اللہ اتنا زیادہ اثر رسوخ رکھتے ہیں کہ وہ خواتین ٹیچرز کو گھر بیٹھے بٹھائے تنخواہ واگذار کرواتے ہیں۔اسکولوں میں اگر ٹیچرز آئے بھی ہیں تو زیادہ تر اپنے گھروں کی باتیں، اپنے بچوں کی پڑھائی، مکانات کی تعمیر اور رشتہ داروں کی باتیں ہوتی ہیں،آج کل تو سمارٹ فون، جیو انٹرنیٹ ہے، زیادہ تر فیس بک اور سوشل میڈیا پر چاٹنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ہفتہ میں ایک دن ’پارٹی ‘کاپروگرام ہوتا ہے، سبھی اساتذہ آپس میں مل کر کھانے پینے کا انتظام رکھتے ہیں، بچوں سے برتن صاف کروائے جاتے ہیں، دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں منگوائی جاتی ہیں، تھوڑا بہت انہیں بھی کھانے کو دے دیاجاتاہے۔جو سرکاری ٹیچرز ابھی جوان جوان ہیں، کافی ذہین ہیں، وہ اسکولوں میں زیادہ وقت مسابقتی امتحانات(Competetive )کی تیاری کرنے میں گذارتے ہیں۔ کچھ جوبچوں کی پڑھائی، مکانات ودیگر کاموں سے فارغ ہوگئے ہوتے ہیں، ان کی زیادہ دلچسپی سیاست میں ہوتی ہے۔سرکاری اسکولوں میں مختلف طرح کے ٹیچرز ہیں، رہبرِ تعلیم ٹیچرز، ایس ایس اے ٹیچرز، جنرل لائن ٹیچرز، ماسٹر گریڈ ، لیکچر، انچارج ہیڈماسٹرز، رمسا ٹیچرز وغیرہ وغیرہ، ان سبھی کی اعلیحدہ اعلیحدہ تنظیمیں بنی ہیں جن کی ریاستی، صوبائی، ضلع، تحصیل، زونل، بلاک سطح پر اکائیاں بنی ہیں اورہر اکائی کے کم سے کم دس عہدادران ہوتے ہیں، ان دس عہدادران کی پوری توجہ ملازمین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا، آئے روز ’تالابند‘اسکول بند، کام چھوڑ ہڑتال دینا، پریس کانفرنسیں کرنا، سیکریٹریٹ چلو کال دینا،احتجاجی دھرنے دینا، نعرہ بازی کرنا، بیانات دینے پر رہتی ہے، ان کو کہاں وقت ملتا ہے کہ وہ بچوں کو پڑھاپائیں، بچوں سے زیادہ انہیں اپنے حقوق کا تو تحفظ کرنا ہے۔کچھ اساتذہ جنہوں نے انتخابات کے دوران ایم ایل اے صاحب کو جتانے میں اہم رول ادا کیاتھا اور جس نے اپنی اہلیہ یا کسی قریبی رشتہ دار کے نام پر ٹھیکیداری کا ’A‘کلاس کارڈ بنوا رکھا ہے تو، اس کو اللہ کے فضل وکرم سے کروڑوں کے ٹھیکے ملے ہیں، وہ انہیں میں مصروف رہتاہے، ہرماہ سیکریٹریٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں، کبھی جموں تو کبھی سرینگر، پے منٹوں کی واگذاری کیلئے، اس دوران دفتر میں اپنی تنخواہ نکوالنے کیلئے بھی کبھی کبھار حاضری دینا پڑتی ہے، اتنی بھاگ ڈور کی وجہ سے کئی بیماریاں بھی لگ چکی ہیں، جن کا علاج بھی چل رہاہے، ڈاکٹر کو بھی ہر ماہ بیرون ریاست چیک کرانا پڑتاہے۔کوئی ٹیچر اپنی اہلیہ کی نوکری نہ لگنے سے پریشان تو کوئی اپنی اہلیہ کی تعیناتی کسی دوسری جگہ ہونے سے پریشان، اوپر سے سرکاری وقت پر تنخوا ہ نہیںدیتی ، مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ اتنے مسائل سے جوجھ رہے جموں وکشمیر کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کیسے بچوں کی پڑھائی پر توجہ دیں۔گاو¿ں کے لوگ بھی ٹیچروں کے دشمن بنے ہیں، اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل ہی نہیں کروارہے، اتنی دشمنی اچھی نہیں ہوتی، بڑی مشکل سے ہمیں نوکری ملی، اب اگر اسکول میں کوئی بچہ نہیں ہوگا، تو اسکول کلب کردیئے جاتے ہیں، کسی دوسری جگہ دور تعیناتی ہوگی ۔ مشکل بڑھ جائے گی۔ گاو¿ں کے لوگ بھی کتنے بیوقوف ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ سرکاران کے بچوں کو دوپہر کا مفت کھانا (Mid Day meal)دے رہی ہے۔ مفت کتابیں، مفت وردی ملتی ہے، اسکالرشپ بھی مل جاتاہے، چلو پڑھائی نہیں ہوتی وہ تو سرکاری اسکولوں کے ٹیچروں کوذاتی پریشانیوں کی وجہ سے نہیں، چلو پڑھائی کا تو سمجھوتہ کیاجاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے یہ غنیمت نہیں کہ سرکار ہمیں ماہانہ 35ہزار سے 70ہزار تک تنخواہ دیتی ہے، ہمارا رہن سہن، تہذیب وتمدن اتنا اعلیٰ، لباس وعطر اتنی مہنگی، باوجود اس کے ہم ان دور دراز گاو¿ں میں آتے ہیں، ٹوٹے پھوٹے اسکولوں میں آکر بیٹھ کر گاو¿ں کی شان کو دوبالا کرتے ہیں۔بھلے ہمارا قصور کیا، ہم پی ایچ ڈی ہیں، ایم ایس ای میںگولڈ میڈلسٹ ہیں، نیٹ ، سلیٹ کیا ہے، ان کو سمجھ نہیں آتی، ہمارے سامنے ان کے بچے بیٹھے رہیں گے تو ان کی شخصیت پراچھے اثرات پڑیں گے، ضروری تھوڑا ہے کہ ہم انہیں ہر مضمون باقاعدگی کے ساتھ روزانہ پڑھائیں ، انہیں کام دیں، ان سے سنیں، محنت کرائیں،ہماری شفقت بھری نگاہیں ہی کافی ہیں، پر انہیں کون سمجھائے۔اب اتنی مشکل ہے کہ منتیں کر کے لوگوں سے یہ کہنا پڑھتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو کم سے کم داخل کراو¿۔ اسکول مت بھیجو، کسی دن بھیج دینا جب کوئی چیکنگ وغیرہ ہوگی۔ اب لوگ بڑے چالاک ہیں، سرکاری اسکولوں میں جہاں پر ٹیچروں کی ماہانہ تنخواہ پر کروڑوں، اربوںروپے سرکار خرچ کر رہی ہے،وہاں صرف پڑھائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کراتے ہیں، جہاں انہیں داخلہ فیس بھی دینا پڑتی ہے، ماہانہ فیس بھی، وردی ، کتابیں بھی لیکر دینی پڑتی ہیں، یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ غریب ہیں، کیوں اتنا خرچہ کریں لیکن یہ لوگ کہاں سمجھنے والے کہتے ہیں، اپنے بچے کو اچھی تعلیم دیں گے تاکہ وہ کل اچھی طرح جی سکیں، ہماری طرح مزدوری نہ کرنی پڑے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑھیں، سماج میں انہیں لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ چلو خیر اگر لوگ ایسا سوچتے ہیں تو سوچتے رہیں، ہمارا کیاجاتاہے ، ہم تو سرکار کے اندر سانٹھ گانٹھ کر کے اپنی ملازمتیں کر رہے ہیں، چلو یہ گاو¿ں والے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل نہ کرکے ہمارے ساتھ دشمنی کرتے ہیں، چلو پھر بھی ان کا شکریہ ، یہ ایسے سیاسی لیڈر چنتے ہیں، جو ماشا اللہ ہمارا پورا خیال رکھتے ہیں، ان کا شفقت کا ہاتھ ہمارے سر پر تو ہے ناں، پھر کس بات کا ڈر……………………….!!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کالم نویس صحافی اور وکیل ہے
ا ی میل:[email protected]