سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے منفی کردار سے صحافت کی اعتباریت واعتمادیت پر سوالیہ

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے منفی کردار سے صحافت کی اعتباریت واعتمادیت پر سوالیہ
’ہندوستان میں نظریاتی طور صحافی آزاد نہیں‘
صحافی کی سوچ غیر جانبدارہونی چاہئے لیکن سمجھوتے کرنے اور نظریاتی وابستگی کو ملحوظ رکھنا عام بات
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//3مئی کو عالمی سطح پر’آزادی صحافت‘دن منایاگیا۔دنیا بھر کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور جموں وکشمیر ریاست میں بھی اس دن کی مناسبت سے سرکاری ونجی سطح پر تقریبات منعقد ہوئیں، اس حوالہ سے کانفرنسیں ہوئی، بحث وتمحیص ہوئی ۔یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے لیے میڈیا کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کروانا ہے۔اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔ہندوستان میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تصور کیاجاتاہے لیکن موجودہ صورتحال میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک چینلوں کے ساتھ ساتھ اخبارات جورول ادا کر رہے ہیں، اس سے جہاں سماج کے ذی شعور افراد میں بے چینی ہے وہیں ورکنگ صحافی بھی اس سے خوش نظر نہیں آتے۔آزادی صحافت کے حوالہ سے گریٹر کشمیر سے وابستہ صحافی یوگیش شرما کہتے ہیں”اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شعبہ کو آزادی تو حاصل ہے لیکن ’سوشل میڈیا ‘پر جس طرح آج کل خبریں چل رہی ہیں، اس سے حالات بہت زیادہ خراب ہے، صحافی کا یہ کام ہوتا ہے جب بھی اس کے پاس کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کی جائے، دونوں پہلوو¿ں کو دیکھاجائے پھراس کو شائع کرے لیکن سوشل میڈیا پراس حوالہ سے کوئی Check and Balance نہیں ہے، آج ہر کوئی صحافی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن صحافت کے جو اصول ہیں ، اس پر بہت کم ہی لوگ کھرا اتر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے صحافت کی اعتباریت اوراعتمادیت متاثر ہوئی ہے۔یوگیش کے مطابق جہاں تک صحافیوں کے حقوق کا سوال ہے تو جموں وکشمیر میں اس نام کی کوئی چیز نہیں، صحافیوں کو جو Privilegesحاصل ہونے چاہئے وہ نہیں، یہاں پر Accrediated Journalistکا مطلب صرف سرکاری تقریبات میں بلاروک ٹوک شمولیت کرنا ہے، ایک قسم کا ایکریڈیشن کی وجہ سے اس کے گلے میں پٹہ ڈال دیاجاتاہے کہ آپ کو سرکاری تقریب میں شرکت کر نی ہی کرنی ہے۔صحافی اور شاعرشیخ خالد کرارکے مطابق ”ہندوستان میں بظاہر کئی دیگر ترقی پذیر ممالک کی بہ نسبت صحافت آزاد ہے، یعنی صحافی آزادی سے اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتا ہے، اسے دباﺅ، تشدد یا جبر کا سامنا نہیں ہے لیکن نظریاتی طور پر صحافی آزاد نہیں ہے اور کسی نہ کسی کھونٹے سے بندھا ہے۔ بطور خاص ہندوستان کا الیکٹرانک میڈیا غیر جانب دار اور زندہ و متحرک صحافت کی مثال نہیں ہے۔صحافی پہلے کی بہ نسبت زیادہ آسانی سے آلہ ¿ کار بن رہا ہے، سمجھوتے کرنے اور نظریاتی وابستگی کو ملحوظ رکھنا عام بات بن چکی ہے۔ نزاعی خطہ ہونے کے باعث ریاست جموں وکشمیر میں البتہ صحافی کو کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں دباﺅ، دھونس ، خوف اور عدم تحفظ کا احساس شامل ہیں۔لہذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحافت آزاداور اکیسیویں صدی کا صحافی خود مختار ہے“۔عام لوگ بھی موجوہ وقت میں صحافت سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ اس حوالہ سے ایڈووکیٹ مظہر علی خان کا کہنا تھاکہ میڈیا چاہئے وہ پرنٹ یا الیکٹرانک ہو، اس کا رائے عامہ کو ہموار کرنے، سماج میں منفی ومثبت سوچ کو فروغ دینے میں اہم رول ہے لیکن اس وقت ہندوستان بھر میں خاص طور سے ٹیلی ویژن چینل کی جویکطرفہ اور فرقہ وارانہ رپورٹنگ ہے، اس سے حالات خراب ہیں۔ مظہر علی کے مطابق الیکٹرانک چینل جس طرح کسی بھی خبر کو تروڑ مروڑکراپنے انداز میں پیش کر کے سماج کے اندر سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ آزادی ِ صحافت کے اصولوں کے منافی ہے، اس پرکنٹرول ہونا چاہئے۔ایک اور صحافی نے رازداری کی شرط پر بتایاکہ موجودہ وقت میں ہندوستان کے اندر جو صحافت کی صورتحال ہے وہ انتہائی تشویش کن ہے ۔ وہ کہتے ہیں”صحیح معنوں میں صحافی وہ ہے جو مذہب، ذات ،پات، رنگ ونسل وغیرہ سے اوپر اٹھ کر غیر جانبدارانہ طور پرسوچے اور اپنی بات کہے لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ جرنلسٹ ہندو اور مسلم کے نام پر، ذات پات کے نام پر ایک مخصوص ایجنڈا اور آئیڈیالوجی کی آبیاری کے لئے کام کرتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ جس آرگنائزیشن /اخبارکے ساتھ صحافی کام کرتے ہیں، ان کو آج کے دوران میں سماج کی فلاح بہبود ی سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اپنے مفادات کی تکمیل اور تجارت فروغ دینا ہے، بہت کم ادارے ہیں جہاں ایک صحافی کو کھل کر غیر جانبدارانہ طور لکھنے کی اجازت ہے“۔سینٹرل یونیورسٹی جموں میںجرنلزم کے ایک طالبعلم کے مطابق صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں بھی ہے ، وہ اقلیت میں رہنے والے لوگوں کی سائڈ لے،سماج کے کمزور طبقہ کی سائیڈ لے، صحافی Anti-Establishmentہو، ایک اچھے صحافی کام کام ہے کہ وہ سرکار سے سوال پوچھے،سرکار کے خلاف بولے، تبھی جاکر لوگوں کی فلاح وبہبودی ہوگی۔اس طالبعلم کا مزید کہنا تھاکہ آج کل زیادہ تر اخبارات میں وہ خبریں شائع ہوتی ہیں جو حکومت کی طرف سے آتی ہیں۔ خبر وہ ہوتی ہے جومعلومات حکومت چھپانا چاہتی ہے، جودکھانا چاہتی ہے وہ تو ایڈورٹائزمنٹ ہوتی ہے“۔میڈیا سماج کا آئینہ ہوتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ صحیح آئنہ دکھایاجائے مگر جوحالات اس وقت ہیں ، اس سے آنے والی نسلوں کو نقصان اٹھانا پڑھ سکتا ہے۔سنیئرصحافی اور شاعر بےتاب جے پوری ٹی وی چینلوں نے صحافت کا بیڑا غرق کر دیا ہے، خبر کو تروڑ مروڑ کر جس طرح ایک مخصوص انداز ایک مخصوص ایجنڈہ کی آبیاری کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس سے آزادی صحافت کا نہ صرف غلط فائیدہ اٹھایاجارہاہے بلکہ یہ صحافت کے اصولوں کے کلی طور منافی ہے۔بےتاب جے پوری مزید کہتے ہیں کہ آج جس طرح ہندوستان میں ایک مخصوص ایجنڈا کو پھیلانے کیلئے میڈیا کا استعمال کیاجارہاہے، وہ نیک شگون نہیں۔یاد رہے کہ دسمبر1993میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے UNESCoجنرل کانفرنس کی سفارشات پر 3مئی کو عالمی یومِ آزادی صحافت قرار دیاتھا۔