باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری روبہ زوال

باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری روبہ زوال
الطاف حسین جنجوعہ
سن2002ءکوجب راجوری میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے اراضی حصولی کا عمل شروع کیاگیا تو اس وقت وہاں پر مقامی افراد جومال مویشی وبھیڑ بکریاں پالتے تھے میںکافی تشویش کی لہردوڑ گئی۔ چونکہ جس جگہ یہ یونیورسٹی تعمیر کی جانی تھی وہاں پر زیادہ تر جنگل، جھاڑیاں اور گھاس چرائی تھی اوران کے مال مویشیوں وبھیڑبکریوں کی خوراک کی جگہ تھی۔یک دم اتنی بڑی جگہ کو چھین لینے کا مطلب ان لوگوں کے لئے روزی روٹی کا سوال بن گیاتھا۔اِن لوگوں نے کافی اعتراض ظاہر کیا لیکن جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ عظیم روحانی شخصیت باباغلا م شاہ بادشاہ ؒشاہدرہ شریف کے نام پر یہاں تعلیمی ادارہ قائم کیاجارہا ہے تو سبھی خوشی خوشی اس جگہ یونی ورسٹی کی تعمیر کے لئے راضی ہوگئے ۔ایسا صرف باباغلام شاہ بادشاہ ؒسے اِن کی عقیدت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ بعد ازاں انہیں یہ بھی اُمید جگی کہ یہاں روزگار ملے گا، ان کے بچے اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گے تو خوشی دوگنی ہوگئی۔راجوری میں باباغلام شاہ بادشا ہ یونیورسٹی کے قیام کو خاص طور سے ”پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی “اپنی ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے۔دیگر سیاسی جماعتیں اورمقامی لوگ بھی اس بات کے معترف ہیں۔راجوری اور پونچھ میں کوئی جلسہ ہویا کسی اور جگہ پر پی ڈی پی کی تقریب میں خطہ پیر پنچال کاذکر ہوتو اس میں تاریخی مغل شاہراہ اور راجوری یونیورسٹی کے قیام کا کریڈٹ لیاجاتاہے۔کسی بھی جگہ اگرکوئی ادارہ قائم ہوتا ہے تو بنیادی طور اس کا فائیدہ وہاں کے لوگوں کو پہنچناچاہئے۔مگرراجوری یونیورسٹی کے قیام کے 16برس بعد اگر آج یہ جائزہ لیاجائے کہ پیر پنچال خطہ کے طلبہ وطالبات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس کا کیا فائیدہ ہوتو اس حوالہ سے مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے۔یونیورسٹی احاطہ میں اگر آپ جائیں تو وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اجنبی جگہ میں پہنچ گئے ہیں، جہاں آپ کو مقامی ملازم یا طالبعلم بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔صرف چند ایک لوگ مالی، درجہ چہارم ملازمین، چوکیدار وغیرہ میں کچھ تعداد مقامی افراد کی دکھائی دیتی ہے۔یونی ورسٹی کی طرف سے مختلف کورسز کی اتنی زیادہ فیس رکھی گئی ہے کہ خطہ پیر پنچال کے مقامی عام طلبہ وطالبات یہ ادا نہیں کرسکتے جس وجہ سے مجبوراًانہیں جموں یا پھربیرون ریاست کی یونیورسٹیوں کی طرف رُخ کرنا پڑتاہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ راجوری پونچھ اضلاع کے طلبہ وطالبات کے لئے سبھی کورسز میں نشستیں مخصوص رکھی جاتیں،فیس میں ان کورعایت دی جاتی توصحیح معنوں میںاس یونیورسٹی کے قیام سے مستفید ہوسکتے۔مقامی طلاب کو زیادہ سے زیادہ ترجیحی ملتی پر ایسا ہے نہیں۔راجوری پونچھ اضلاع کے طلاب اتنے ذہین ہیں کہ وہ جواہر لعل نہرو¿ یونیورسٹی نئی دہلی، جامعہ ملیہ یونیورسٹی نئی دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، حیدر آباد یونی ورسٹی اور ملک کی دیگر نامی گرامی یونیورسٹیوںمیں ملکی سطح پر ہونے والے انٹرنس میں بھی کامیابی حاصل کر کے داخلہ پارہے ہیں۔ صرف داخلہ ہی نہیں بلکہ امتیازی پوزیشنوں سے کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر اپنی قائدانہ وسہ نصابی سرگرمیوں کابھی بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔راجوری یونیورسٹی کے قیام سے پونچھ راجوری کے طلاب کو یہ راحت ملتی کہ انہیں گھر سے میلوں دور تعلیم کے لئے جانا پڑتا، اس پر آنے والے اخراجات برداشت نہ کرنے پڑتے۔راجوری یونیورسٹی کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ اس سے تو بیرون ریاست طلاب کو تعلیم حاصل کرنا سستی پڑتی ہے ۔یہی حال تدریسی وغیرتدریسی، کلریکل وانتظامی عملہ ہے ،اس شعبہ میں بھی بیشتر غیر مقامی ہیں،یہاں پر بھی مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کوئی فائیدہ نہیں ملا۔اس کے لئے انتظامیہ کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ بھرتی عمل کے دوران وہ میرٹ ومعیار پرکھرا نہیں اُترے۔ لیکن تب اس دعویٰ کی نفی ہوجاتی ہے جب جے این یو، جامیہ ملیہ یونیورسٹی نئی دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، حیدر آبادکے علاوہ ملک کی دیگر نامی گرامی یونیورسٹیوں میں جب پونچھ راجوری کے تعلیم یافتہ نوجوان ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔
راجوری یونی ورسٹی میں اسکالرشپ گھوٹالہ، بھرتی گھوٹالہ،ڈھانچہ کی تعمیر میں مبینہ ہیرپھیر،جنسی زیادتیوں کے واقعات، منشیات کا کاروبار کی شکایات سے بھی اس عظیم ادارہ کاتقدس پامال ہوتا دکھائی دے رہاہے۔راجوری یونیورسٹی کے قیام کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دینے والوں سے ایک سوال ہے کہ آیا کبھی انہوں نے اس طرف بھی کبھی توجہ دی کہ اس سے مقامی طلبہ وطالبات یا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کیافائیدہ ملا۔شروع میں جب یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس وقت بانی وائس چانسلر مسعود احمد چوہدری کی زیر سرپرستی ہرکسی نے عقیدت کے ساتھ اس ادارہ کی دن دگنی اور ات چوگنی ترقی کے لئے کام کیا مگر اس کے بعداس ادارہ کو کوئی مخلص اور ہمدرد سربراہ نہ مل سکا۔ غیرمقامی جو بھی وائس چانسلر تعینات ہوئے وہ علاقائی معاشی، سماجی، سیاسی صورتحال اور نفسیات کے اتنے زیادہ جانکارنہیں تھے جس وجہ سے یونیورسٹی کے اندر اور باہر باآسانی چند حقیر مفادات رکھنے والے افسران وافراد قربت بنانے میں کامیاب رہے جن کا دائرہ وسعت محدودہے۔عظیم روحانی شخصیت سے منسوب اس ادارہ کو مخلص رہبروسربراہ کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی خطہ پیر پنچال کے طلاب کے لئے نشستیں مخصوص کرنے کے ساتھ فیس میں رعایت دی جانی چاہئے تاکہ بنیادی طور حقدار اس سے مستفید ہوسکیں بصورت دیگر راجوری پونچھ کے لئے یہ یونی ورسٹی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘کے مترادف ہی ہے۔سول سوسائٹی، خطہ کے معززین، سماجی وسیاسی شخصیات کو بھی ملی ذمہ داری کے طور اس ادارہ کی ترقی کے لئے اپنا رول ادا کرنا چاہئے اور اس کے کام کاج پر نظر رکھنی چاہئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]