پریس کے نام طویل پیغام درابو کی’ دلیل ‘ برخاستگی کی ترسیل کا طریقہ کار صدمہ انگیز،مجھ سے قبل میڈیا آگاہ

سرینگر // وزارت ِ خزانہ سے برخاست ڈاکٹر حسیب درابو نے منگل کی شام پریس کے نام ایک طویل پیغام جاری کیا ہے جس میں نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران دئے گئے بیان کہ ” کشمیر سیاسی نہیں بلکہ سماجی مسئلہ ہے ‘ سے لے کر گزشتہ روز تک پیش آنے والی روداد تفصیل سے بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ابھی تک انہیں حکومتی یا پارٹی سطح پر وزارت سے برخاست کرنے سے متعلق کوئی رسمی یا ذاتی پیغام نہیں پہنچا ہے اور اس سب کے بارے میں انہیں محض ذرائع ابلاغ سے جانکاری مل رہی ہے ۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس میں ان کا بیان سیاق و سباق سے باہر پیش کیا گیا جبکہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے سول سوسائٹی کے کردار کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں چنیدہ سفارتکار اور صنعتکار ہی موجود تھے جو کہ ریاست میں امن قائم کرنے کی کاؤشوں کے ممکنہ حصہ دار ہو سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر درابو نے صفائی پیش کر تے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جو کچ کہا اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ کشمیر صرف سیاسی مسئلہ ہی نہیں جسے بھارت کو بطورِ ایک قوم کے اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کو کو حل کر نا ہے بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے جسے سول سو سائٹی کی سطح پرحل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کا بیان ایک وسیع تناظر میں تھا کہ کس طرح ہماری سوسائٹی تباہ ہوئی ہے اور حقیقی زندگی کے حالات اور احساسات ، بالخصوص نو جوانوں کو متاثر کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے مختلف ممالک کی طرف سے جاری ہونے والی ٹریول ایڈوایزریوں کا حوالہ دیا جو ہو سکتا ہے کہ سیاسست سے متاثر ہوں لیکن ایک طرح سے کشمیریوں کے سوشل بائیکاٹ کا کام کرتی ہیں ۔ سابق وزیر خزانہ اپنے بیان میں مزید کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ میں نے کہا ، اس میں برعکس مقاصد کارفرما تھے ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں یہ بار بار کہہ چکا ہوں کہ کشمیر کو کئی سطحوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب وہ جموں کشمیر بنک کے چیئر میں تھے تو اس وقت بھی وہ کہتے تھے کہ بنک کے 40فیصد حصص غیر ملکی اداراتی سرمایہ کار تھے جبکہ ایک بھی بھارتی نے اس میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی ۔ اپنے 14جون 2014کی سرینگر میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ وہ بھی ان ہی خطوط پر تھی جس کا تلخیص ایم مقامی انگریزی روزنامہ میں بھی شائع ہو ئی تھی ۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنہوں نے ان کی تقریر سنی ہے یا اسے غیرجذباتی ہو کر پڑھنے کی زحمت اٹھائی ہے ، جانتے ہیں کہ جب وہ خواہشات اور اپنے آپ کو کھوجنے کی بات کر رہے تھے ، پیپولز ڈیمو کریٹک پارٹی کے موقف کی ہی ترجمانی ہو رہی تھی ۔ درابو کا مزید کہنا تھا کہ میری جانکاری کے مطابق بیان کسی بھی طور پی ڈی پی کے سیاسی موقف کے بر خلاف نہیں جاتااور نہ ہی پارٹی کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے ۔جہاں تک مجھے پی ڈ ی پی کے سیاسی نظریہ کی سمجھ ہے ، اور مختلف انتخابات کے دوران پارٹی کے الیکشن منشور ، اور سب سے اہم سلیف رول دستاویز جس میں تیار کرنے میں مرحوم مفتی محمد سعید نے مجھے بھی شامل کیا ۔اور سب سے اہم ایجنڈا آف الائنس جس پر موجودہ مخلوط حکومت قائم ہے مرحوم کی ہدایت اوررہنمائی سے ہی ممکن ہوا۔ واقعات کا ظہور اس طرح ہوا کہ میں نے پی ایچ ڈی سی سی آئی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب پر 9مارچ کی شام کوتقریر کی ۔11مارچ کو نئی دلی سے واپسی پر نائب صدر سرتاج مدنی کا یہ بیان نظر نواز ہواکہ مسئلہ کشمیر کا حل پارٹی کا بنیادی مقصدہے اور مجھ سے نئی دلی میں دیا گیا بیان واپس لینے کو کہا گیا تھا۔اور شام کے وقت انضباطی کمیٹی کے چیئرمین عبدالرحمن ویر ی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ۔جس میں مجھے سے نئی دلی میں مبینہ طور دئے گئے بیان کی وضاحت مانگی گئی جس سے کہ پارٹی کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے ۔میں نے ویری صاحب کو فون ملایا تاہم شائد وہ جواب دینے میں کسی وجہ سے معذور تھے ۔تاہم بعدازاں میں نے ان کا ایک مس کال دیکھا۔اگلی صبح میں نے دوبار ویری صاحب سے بات کی اور جواب میں انہوں نے پارٹی صدر اور وزیر اعلیٰ سے بات کرنے کو کہا۔میں نے نئی دلی میں وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر فون ملایا جہاں سے یہ جواب ملا کہ وزیر اعلیٰ مصروف ہیں اور وہ 10منٹ بعد ازخود فون کریں گی ۔تاہم وہ فون نہیں آیا۔دوپہر تک میں انتظار کرتا رہا او ر اور فون کرکے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کا وقت مانگا۔میں ملاقات کا منتظر ہی تھا کہ روزنامہ گریٹر کشمیر کی ویب سائٹ سے یہ خبر ملی کہ وزیر اعلیٰ نے مجھے کابینہ سے برخاست کرنے کا فیصلہ لیا ہے اور اس بارے میں گورنر کو لکھا گیا ہے ۔بالآخر مجھے فون کرکے وزیر اعلیٰ سے ملنے کے لئے شام 7:15پر بلایا گیا۔میری برخاستگی کا فیصلہ اچانک آیااور جس طریقہ سے مجھے مطلع کیا گیا وہ میرے لئے صدمہ انگیز تھا،میں پارٹی کے فیصلے کو سمجھتا ہوں اور یہ مجھے منظور بھی ہے۔لیکن مجھے سے مخاطب ہونے سے قبل میڈیا سے مخاطب ہونادرد انگیزہے ۔مجھے اپنی تقریر کے سیاق وسباق کی وضاحت کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔پی ڈی پی کے ساتھ میرا سفر تب سےشروع ہو ا جب میں باضابطہ طور سیاست میں نہیں تھا میں نے جو بھی بتایا وہ مجھے ساری عمر یاد رہے گادرابو نے کہا کہ میں نے ہمیشہ بھروسے کے رشتے کو قائم رکھا ہے جتنی مجھ میں ہمت اور طاقت تھی میرا بھروسہ غیر ضروری طور توڑا گیا ہے حتیٰ کہ میں جب بی جے پی کی ساتھ سرکار بنانے کی کوشش میں تھاتومجھے ہی شرائط بنانے لئے مقرر کیا گیا ہے جو بعد میں محبوبی جی کے دور اقتدار تک برابر چلے ۔ہر ایک معمولی میٹنگ ،فیصلہ،ڈسکشن،یاسمجھوتہ،صدراور سرپرست کی موجو گی میں ہوتا ہے میںاپنی سیاسی سفر پر تاحال فخرمحسوس کرتا ہوںمیں مفتی صاحب کا سال 20003سے وزیر خززانہ رہا ہوں جب مجھے اقتصادی مشیر مقرر کیا گیا ہے یہ مفتی صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے متاثر کیا ہے اور سیاست میں داخل کیا ۔اور عوام کی خدمت کرنا سکھا یا۔