’جموںمیں ڈیموگرافی کی تبدیلی‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

سال 1947کو تقسیم ِ ریاست کے عظیم سانحہ کے وقت جموں خطہ میں مسلمانوں کی آبادی60فیصد اور جموں ضلع میں40%تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جموں صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی قریب30فیصد اور جموں ضلع میں7فیصد کے آس پاس ہے۔حقیقت میں ڈیموگرافی کس کی تبدیل ہوئی ہے ، اس کو دیکھاجائے۔ تاریخ کی سب سے بڑی نا انصافی اور ظلم مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے جنہیں آج ’Demographic Change‘کا شکار بناکر مزید یہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔1947میں بھی مسلمانوں کو جموں میں فرقہ پرستی کا شکار بنایاگیاتھا اور آج پھر سے ایسی ہی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔اس طرح کی کوششوں سے یہ ریاست، ملک فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ کر بکھر جائے گا۔
’جموںمیں ڈیموگرافی کی تبدیلی‘
اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
الطاف حسین جنجوعہ
فرقہ پرست ذہنیت ،تنگ نظری اور متعصبانہ رویہ کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے صوبہ جموں بالخصوص جموں ،کٹھوعہ، سانبہ، اودھم پور میںکچھ نہ کچھ مخالف پروپگنڈہ ہوتاہی رہتاہے۔ آصفہ قتل معاملہ اور روہنگیائی وبنگلہ دیشیوں کو جموں بدرکرنے کی منصوبہ بند مہم ابھی جاری ہی تھی کہ، پچھلے ہفتہ ایک نیا وبال کھڑا ہوگیا۔یہ ہنگامہ وزیر اعلیٰ کی قبائلی آبادی سے متعلق ہدایات پر تھی۔وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے قبائلی امور محکمہ کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی کہ ٹرائبل پالیسی کی تشکیل تک خانہ بدوشوں کو نہ اجاڑا جائے۔موصوفہ نے تجاوزات مخالف مہم کیلئے قبائلی امور وزارت سے اجازت لازم قرار دی اور پولیس کے استعمال پر پابندی کا حکم صادر کیا۔اگر چہ یہ کوئی مستقل فرمان نہیں بلکہ عارضی اقدام تھا تاکہ ناجائز تجاوزیات مخالف مہم کی آڑ میں براہ راست ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانا اور انہی سے مہم شروع کرنے کی سوچ کو بدلہ جاسکے۔اس پر ایک نیا وبال کھڑ ا کر دیا گیااور متعدد بھگوا تنظیموں نے اس کو جموں کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے اور مسلمانوں کی آبادی بڑھانے کاالزام لگایا۔اس معاملہ کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا صورتحال پیدا ہوئی اس پرکچھ روشنی ڈالنے سے قبل حکومتی ہدایات کا ذکر کرنامناسب سمجھتا ہوں۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حکام کو ہدایت دی کہ وہ ریاست میں مختلف مقامات پر رہائش پذیر خانہ بدوشوں کو اُجاڑنے کے لئے تب تک کوئی مہم نہ چلائیں جب تک ان کے لئے ٹرائبل پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی ۔ قبائلی امور وزارت کے کام کاج کا جائزہ لینے کے دوران محبوبہ مفتی نے حکام کو ہدایت دی کہ جب تک پالیسی مرتب نہیں ہوجاتی ہے خانہ بدوشوں کو ان مقامات سے نہ اٹھایاجائے جہاں وہ رہائش پذیر ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگر کسی مجبوری میں ایسا کوئی قدم ناگزیر ہوتو محکمہ قبائلی امور کو پیشگی اعتماد میں لیاجائے۔ اس میٹنگ میں چوہدری ذوالفقار کے علاوہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت اجے نندہ، چیف سیکریٹری بی بی ویاس، پرنسپل سیکریٹری ہوم راج کمار گوئل بھی موجود تھے ۔ وزیر اعلیٰ نے پولیس کو ہدایت دی کہ قبائلی امور محکمہ کی اجازت کے بغیر خانہ بدوشوں کے خلاف مہم چلائی جانے والی کسی بھی تجاوزیت مخالف مہم کو پولیس کا تعاون نہ دیاجائے۔ تحریری نوٹ میں وزیر اعلیٰ نے آئی جی پی جموں اور تمام ضلع ترقیاتی کمشنروں کو اس سلسلہ میں غیر مبہم ہدایت دی ہے۔ گوجر اور بکروال طبقہ کو فاریسٹ ایکٹ کے تحت حقوق دیئے جانے کے مجوزہ قانون پر تبادلہ خیال کے دوران محکمہ جنگلات کو اپنی رائے دینے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے علاوہ محکمہ داخلہ وجنگلات کو شیڈیولڈ کاسٹ وشیڈیولڈ ٹرائب (ذیادتیوں سے تحفظ بل )کے حوالہ سے اپنے آراءدینے کے لئے کہاگیاہے۔ قابل ذکر ہے کہ فاریسٹ ایکٹ کو محکمہ قانون کی صلاح پر محکمہ جنگلات کو بھیجاگیاہے۔ اس ایکٹ میں مرکزی فاریسٹ رائٹس ایکٹ مجریہ 2006کی طرز پر خانہ بدوشوں اور جنگلات زمین پر رہائش رکھنے والے طبقوں کو حقوق تفویض کئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ پچھلے چند برس کے دوران جموں خطہ میں خانہ بدوشوں کے خلاف چلائی جانے والی تجاوزات مخالف مہموں کو یہ کہہ کر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ حکام کی جانب سے ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایاجاتاہے۔ یہ ہدایات ایک ایسے وقت میں آئی ہیں جب قبائلی امور کے وزیر چوہدری ذوالفقار علی کی سربراہی والی کابینہ سب کمیٹی اس معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں میں لگی ہے۔اس خبر کو جموں کے چند اخبارات، ٹیلی ویژن چینل اور نیشنل میڈیا نے کچھ اس طرح انداز میںپیش کیاکہ ہندو¿ طبقہ کے لوگوں کو اُکسایاجائے۔یہ کہاگیاکہ اس فیصلہ سے جموں میں اہم ترقیاتی پروجیکٹوں پر کام رک جائے گا اور ساتھ ہی امن وقانون کی صورتحال پیدا ہوگی۔ایک موقر انگریزی روزنامہ میں یہ خبر آئی کہ اس سے وجے پور میں AIIMSکاتعمیری کام متاثر ہوگا کیونکہ تب تک شروع نہیں کیاجاسکتا جب تک وہاں سے قبائلی آبادی کوہٹایانہ جائے۔ یہ حدشہ بھی ظاہر کیاگیاکہ اسی طرح جموں، نگروٹہ اور دیگر مقامات پر جموں ڈولپمنٹ اتھارٹی کے درجنوں پروجیکٹ ہیں، جن کا کام، اِن ہدایات کے بعد رک جائے گا۔7مارچ کوایڈووکیٹ انکور شرما جس نے عدالت عظمیٰ میں آئین ہند کے دفعہ35Aکو چیلنج کرنے اور جموں وکشمیر میں ہندو¿ں کو مائنارٹی کا درجہ دینے کے لئے عرضیاں دائر کر کے بھگوا تنظیموں سے خوب واہ واہ بٹوری تھی، نے جموں میں ایک پریس کانفرنس کر کے الزام لگایاکہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت لینڈ مافیا اور مویشی اسمگلروں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے 14فروری2018کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صدارت میں منعقدہ قبائلی امور محکمہ اجلاس میں’Minutes of Meeting‘کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گوجر بکروال اگر کوئی جرم کرتے ہیں تو انہیں سی آر پی سی، رنبیر پینل کوڈ، لینڈ ریونیو ایکٹ اور فوجداری نظامِ انصاف کے دیگرتعزیراتی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا۔حکومت نے جنگلات اراضی پر قبضہ کرنے اور سیکشن 188آر پی سی اور انیمل کریولٹی ایکٹ کے تحت کارروائی نہ کرنے کو کہاگیاہے۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایاکہ روشنی ایکٹ اس لئے بنایاگیاہے تاکہ جموں خطہ میں ڈیموگرافی تبدیلی کی جائے اور حالیہ ہدایات غیرقانونی اور مجرمانہ نہیں۔انہوں نے مسلم طبقہ کے خلاف خوب زہر اگلا اور یہ بھی کہاکہ روہنگیا اور بنگلہ دیشی جوغیر قانونی طور پر جموں میں آباد ہیں، کو بھی یہاں بسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔دوسرے روز یعنی8مارچ کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ بارایسو سی ایشن، جوکہ خود کو پورے جموں خطہ کی نمائندگی کرنے کاخود ساختہ دعویٰ (اصل میں صرف جموں، سانبہ ، اودھم پور ، ریاسی تک محدود)کرتی ہے، نے پریس کانفرنس کرکے آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش کی۔بار صدر بی ایس سلاتھیہ نے کہا کہ جموں کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اوردھمکی دی اگر ضرورت پڑی تو حکومت کو بھی گرا دیاجائے گا۔ انہوں نے الزام لگایاکہ یہ جموں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی گہری سازش ہے جس سے ریاست کے اقلیتی طبقہ کے جذبات مجروع ہوئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ1994سے جموں کی ڈیموگرافی تبدیل (Demography Change)ہوئی ہے اور پچھلے تین سالوں میں جموں کے آس پاس اور کٹھوعہ وسانبہ اضلاع میں بڑے پیمانے پر مسلم آباد ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کو زیادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے جموں میں قوم پرستوں کے لئے سنگین صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ بار صدر نے حکومت کی ڈائریکشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوری انہیں واپس لینے کو کہا۔ بار صدر نے مسلمان کو بھی شک کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنے دوغلے پن کا بھی ثبوت دیا۔اسی پریس کانفرنس کے دوران جموں بار کا دوہرا معیار بھی نظر آیا۔ جب ان سے یہ پوچھاگیاکہ نوشہرہ میں احتجاج کے دوران ہندو¿ طبقہ کے نوجوانوں نے پاکستان کے حق میںنعرے لگائے تو ، انہوں نے کہاکہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، نوجوانوں نے جذبات میں آکر ایسا کیاہے، وہ تو ہندوستانی ہیں۔سوشل میڈیاپر’ڈیموگرافی چینج‘کا اس طرح پروپگنڈہ کر کے ہندو طبقہ کے لوگوں کے جذبات اُکسانے کی مفاد پرست عناصر نے کوئی قصر باقی نہ چھوڑٰ۔
ویشیو ہندو پریشدکارکنوں نے ایڈووکیٹ لیلا کرن شرما کی قیادت میں اس معاملہ پر راج بھون کے باہر دھرنا دیا اور مطالبہ کیاکہ ان ہدایات کو واپس لیاجائے کیونکہ اس سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ جائے گی۔ٹیم جموں نامی تنظیم کے چیئرمین اور پریس کلب جموں کے جنرل سیکریٹری زور آورسنگھ جموال نے الزام عائد کیاکہ ’اسلام فاشسٹ ایجنڈہ ‘کے تحت جموں کی ڈیموگرافی تبدیل کی جارہی ہے، اس عمل میں وزیر اعلیٰ کا شامل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ارادے کیا ہیں۔پبلک اوپنن فورم(پی او ایف)نے کہاکہ حکومت نے عوامی املاک پر غیر قانونی قبائلی قابضین اور لینڈ قابضین کے خلاف سرکاری مشینری کا استعمال نہ کرنے کی ہدایت دیکر جموں میں ایک خاص طبقہ کے اثر رسوخ کو بڑھانے کی کوش کی ہے۔اس اجلاس میں پروفیسر وریندرگپتا، کرنل جے پی سنگھ، ڈاکٹر گوپال پارتھ سارتھی، اور ہندوطبقہ سے تعلق رکھنے والی متعدد سیاسی، سماجی شخصیات، ماہرین تعلیم تھے۔ شری رام سینا ریاستی صدرراجیو مہاجن نے ہنگامی پریس کانفرنس کر کے کہاکہ یہ پیش رفت سب کے لئے چشم کشا ہے اور اس سے بی جے پی کے دوہرے معیار کی پول کھل گئی ہے جس نے اقتدار کی خاطر سرینڈر کر دیاہے اور جموں مخالف فیصلوں کے لئے منعقد ہونی والی میٹنگوں میں شرکت کی جاتی ہے۔ انہوں نے وزیر مملکت اجے نندہ کے استعفیٰ کی مانگ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملہ میں مداخلت طلب کی۔شری امر شتریہ راجپوت سبھانے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ ریاست میں گورنر راج نافذ کیاجائے۔جموں ویسٹ اسمبلی موو¿منٹ (JWAM)نے احتجاج کیا۔ انہوں نے کہاکہ پرانے جموں ضلع کی شناخت اور تشخص کو مٹانے کی کوشش ہے۔ قبائلی آبادی کو پریشان نہ کرنے کے حوالہ سے متعلقہ حکام کو جاری ہدایات ایک گہری سازش کا حصہ ہے ۔ بقول سنیل ڈمپل اس سے ریاست کے اقلیتی طبقہ(ہندو¿ں)کے جذبات مجروں ہوئے ہیں۔انہوں نے تمام سیاسی، سماجی تنظیموں سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ’جموں بندھ‘کال کی بھی دھمکی دی۔ڈوگرہ فرنٹ اور شیو سینا صدر اشو ک گپتا نے کہاکہ کچھ عناصر جموں کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گوجر بکروالوں کو حکومت جو تحفظ فراہم کررہی ہے، وہ کبھی ہونے نہیں دیں گے۔ کوئی دن خالی نہیں کہ ’قبائلی آبادی کے حوالہ سے حکومت کی ہدایات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، دھرنا، مذمتی بیان ، پریس کانفرنس نہ ہو اور یہ سلسلہ دراز ہوتاجارہاہے۔
دراصل وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے یہ ہدایات قبائلی آبادی پر جنگلات اراضی، جے ڈی اے اراضی پر ناجائز قبضہ ہٹانے کی آڑ میں ہراساں پریشان کرنے اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ188اور جانوروں پر ظلم قانون کے غلط استعمال کی بڑھتی شکایات سے پیدا شدہ صورتحال سے نپٹنے کے لئے عارضی اقدام کے طور پر جاری کیں جس کا مطلب ہرگز قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا، ان کی پشت پناہی کرنا نہیں بلکہ ان کے ساتھ قانون نافذ کرنے کے نام پر ہورہی ذیادتیوں، ظلم وستم سے روکنا تھا۔پچھلے کچھ عرصہ سے یہ مشاہدہ کیاگیاہے کہ جنگلات اراضی اور جموں ڈولپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر ہوئے غیر قانونی قبضہ کو ہٹانے کے لئے جب بھی محکمہ جنگلات یا JDAنے کوئی مہم چلائی تو ، اِس کا آغاز قبائلی آبادی سے کیاگیا ۔ بھاری پولیس کی نفری کے ہمراہ اس مہم کے دوران چند گھنٹوں میں ان کی جھگی جھونپڑیوں، کولوں اور آشیانوں کو ملیا میٹ کردیاجاتاہے۔اس کے برعکس طاقتور، اثررسوخ رکھنے والے افراد جن میں اکثریت تعداد ہندوطبقہ کی ہے، جنہوں نے فاریسٹ لینڈ اور جے ڈی اے زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، کے خلاف کارروائی کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے لئے سیاسی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں ، سانبہ، کٹھوعہ میں ہزاروں کی تعداد میںبیرون ریاست سے تعلق رکھنے والے بااثر تاجر، صنعتکار، بیوروکریٹ جعلی ’اسٹیٹ سبجیکٹ‘’ریاستی پشتنی باشندہ سرٹیفکیٹ‘بنوا کر یہاں پر آباد ہوگئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کانئی دہلی میں اچھا اثررسوخ ہے ۔ ساتھ ہی سیاسی تار بھی بہت مضبوط ہیں کیونکہ وہ پارٹی فنڈنگ اچھی خاصی کرتے ہیں۔ اب انہیں گوارہ نہیںکہ انہیں یہاں سے کوئی نکال پائے۔سال 1999میں ریاستی حکومت نے ریٹائرڈ جسٹس اے قیوپرے کی سربراہی میں غیر ریاستی باشندوں کوجعلی اسٹیٹ سبجیکٹ اجراءکرنے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی جس نے فروری2013تک اپنی پانچ رپورٹیں پیش کیں، اس میں ہزاروں کی تعداد میںلوگ غیر ریاستی پائے گئے ہیں۔ 200کے قریب جموں کے بااثر تاجر، صنعتکار اور کاروباری لوگ بھی شامل ہیں، جوکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ پر فرقہ پرستی اور جھوٹی قوم پرستی کو ہوا دیکر خود کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
’ڈیموگرافی چینج ‘کا جووویلا کیاجارہاہے، اگر حقیقت میں تعصب، فرقہ پرستی کی عینک اُتار کر دیکھاجائے تو خود بخود معلوم ہوگا کہ تاریخ انسانیت کے عظیم سانحہ کا شکار جموں کے مسلمان ہوئے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور خود کو بہت بڑا دفاعی تجزیہ نگار کہنے والے بریگیڈئر انیل گپتا نے انگریزی روزنامہ’ڈیلی ایکسیلشیئر‘میں Demographic changes make Jammu a “Ticking Time Bomb”عنوان سے مضمون لکھا اور جموں کے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا، انہوں نے لکھاکہ سال 1986-87میں جموں ضلع میں چند فیصد(2-3)فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی، جس میں اس کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا۔ حیران کن ہے کہ گپتا کو یہ صرف 1986-87ہی کیوں نظرآیا، جوکہ آج سے 30برس پیچھے ہے ۔اس سے قبل کے اعدادوشمار کو نظر انداز کیوں کیا۔موصوف مزید 40برس پیچھے جاتے توانہیں معلو م ہوتا ہے کہ جموں خطہ میں مسلمانوں کی آبادی60فیصد اور جموں ضلع میں40%تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جموں صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی قریب30فیصد اور جموں ضلع میں7فیصد کے آس پاس ہے۔حقیقت میں ڈیموگرافی کس کی تبدیل ہوئی ہے ، اس کو دیکھاجائے۔ تاریخ کی سب سے بڑی نا انصافی اور ظلم مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے جنہیں آج ’Demographic Change‘کا شکار بناکر مزید یہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔1947میں بھی مسلمانوں کو جموں میں فرقہ پرستی کا شکار بنایاگیاتھا اور آج پھر سے ایسی ہی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔اس طرح کی کوششوں سے یہ ریاست، ملک فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ کر بکھر جائے گا۔ سب کے لئے بہتری اسی میں ہے، مل جل کر رہیں، اس طرح کی مہم چندافراد یا کسی طبقہ کے لئے فائیدہ مند ہوسکتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کا نقصان ملک اور ریاست کو بھگتنا پڑے گا۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ صحیح معنوں میں ’سیکولر کریکٹر‘رکھنے والی شخصیات ، اس نازک مرحلہ میں اپنا مثبت رول ادا کریں، وہیں دوسری اور اس طرح کے حالات واقعات بار بار امت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرو¿۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[email protected]
نوٹ:مضمون نگار صحافی اور وکیل ہے