آصفہ سانحہ اور روہنگیا کی آڑ میں2021کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش

آصفہ سانحہ اور روہنگیا کی آڑ
میں2021کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش

الطاف حسین جنجوعہ

کیا جموں صوبہ میں سال 2008امرناتھ تنازعہ اراضی جیسی صورتحال تو پیدا نہیں ہوگی….؟۔کیا بی جے پی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے لئے دوبارہ سے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنے جارہی ہے….؟ کیا چھ سال کی مدت پورا ہونے سے قبل ہی بھاجپا، پی ڈی پی سے الگ ہوکر پھر سے اپنے روایتی انتخابی آلہ’فرقہ پرستی‘پر عمل ہوکر سال2021اسمبلی انتخابات کے لئے راہ تو ہموار کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہی۔یہ چند سوالات صوبہ جموںکے کٹھوعہ، سانبہ اور جموںاضلاع میں زمینی سطح پرپیداشدہ صورتحال کے تناظر میں ہرذی شعور وذی حس افراد کے ذہنوں میں گرد ش کر رہے ہیں۔بیک وقت آصفہ قتل کیس کو فرقہ وارانہ رنگت دینے اور روہنگیا مسلمانوں کو جموں بدر کرنے کے لئے جاری منصوبہ بند اور اشتعال انگیرمہم سے بادی النظر سے مذکورہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا مشکل نہیں۔کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع کوآصفہ قتل معاملہ میں گرفتارمجرمین کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے احتجاج ، بند کال اور ایجی ٹیشن نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے توجموں میں روہنگیا ئی مسلمانوں کو جموں بد ر کرنے کے لئے جارخانہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔
رواں برس10جنوری کو کٹھوعہ ضلع کی تحصیل ہیرا نگر کے پٹہ رسانہ گاو¿ں میںآٹھ سالہ معصوم آصفہ کا لاپتہ ہونا،17جنوری کونعش ملنا، اغوکاری، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کی گونج جموں پٹھانکوٹ قومی شاہراہ پر سے شروع ہوکر عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کے ادارہ میںبھی سنائی دی۔ برصغیر ہند میں سال2018کے آغاز میں ہی پاکستان میں زینب اور جموں وکشمیر میں آصف کا آغوا، عصمت ریزی اور قتل نے پوری انسانیت کو ہلادیا۔ ہندوستان بھر میں آصفہ واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بھرپور مذمت کی گئی،ہرکوئی آصفہ کے قاتلوں کو سبق آموز سزا دینے کا مطالبہ کرتانظر آیا۔ خصوصی تحقیقاتی ٹی،مجسٹریل انکوائری پھر کرائم برانچ کو کیس تھمانے کے بعد اب سی بی آئی انکوائری مطالبہ طول پکڑتاجارہاہے۔اس معاملہ پر سیاست اس قدر گرما چکی ہے کہ اب سمجھ میں نہیں آرہاکہ کون مخلص ہے،کون سچ کہہ رہا ہے تو کون جھوٹ….؟۔اس قدر اس معاملہ کو سیاست کا شکار بنا دیاگیاہے کہ یہ معاملہ پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لینے کی طرف بڑھتا نظر آرہاہے۔ ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے قومی پرچھم اُٹھائے آصفہ قتل معاملہ میں گرفتار ایس پی اوز ودیگر افراد کی رہائی کے حق میں احتجاجی ریلی نکالنے کے بعد اس معاملہ نے نازک صورتحال اختیار کر لی ہے۔اُلٹا چور کوتوالی کو ڈانٹے اور چوری وسینہ زوری کے مصداق اس صورتحال میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے پٹہ رسانہ سے ہندو¿ برادری کے لوگوں کی مبینہ نقل مکانی بارے ریاست کے چنداخبارات اور نیشنل میڈیا نے غلط رپورٹنگ کی۔ اس صورتحال سے حقیرمفادات حاصل کرنے والے سماج دشمن عناصر کو اپنے مذموم ارادوں کوتقویت دینے کی حوصلہ افزائی ملی۔کٹھوعہ میں ’ہند وایکتا منچ‘کے بینر تلے بڑے پیمانے پر احتجاجی سلسلہ شروع ہوا ۔ حکمراں جماعت بھاجپاسے وابستہ دو وزراءوزیر جنگلات وماحولیات چوہدری لال سنگھ جن کا تعلق کٹھوعہ ضلع سے ہی ہے، اور سانبہ سے وابستہ صنعت وحرفت کے وزیر چندر پرکاش گنگا نے شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے کہا دھرنے پر بیٹھے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت میں بی جے پی کا آدھا حصہ ہے ، ان کے بنا حکومت نہیں چل سکتی، دو دن کے اندر سی بی آئی انکوائری کا حکم جاری ہوجائے گا۔ لال سنگھ نے یہ بھی کہاکہ وہ اور پوری بھاجپا لوگوں کے ساتھ ہے اور ان کی ہر بات کا احترام کیاجائے گا، اگر سی بی آئی انکوائری نہیں ہوئی تو وہ بھی اندولن میں شامل ہوجائیں گے۔چندرپرکاش گنگانے بھی وہاں پرمشتعل تقریر کی اور لوگوں کی دکھتی نبض کے اوپر ہاتھ رکھتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاکرخوب داد بٹوری۔ دو دن گذرنے کے بعد جب سی بی آئی انکوائری کا اعلان نہ ہوا تو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے جب لال سنگھ سے دریافت کیاتو ہم لوگوں کے ساتھ ہیں، ان کے ساتھ انصاف نہیں ہونے دیں گے۔ چندرپرکاش گنگا نے دھمکی بھرے الفاظ میں کہا”اگر سی بی آئی انکوائری کا حکم نہ دیاگیاتو پھر”آپ کو پتہ ہی ہے کہ چند رپرکاش گنگا کیا کرسکتا ہے“۔انہوں نے کہاکہ وہ تماشادیکھنے نہیں آئے ہیں،لوگوں کے ساتھ ظلم ہورہاہے۔یوں تو روز اول سے ہی پی ڈی پی۔ بی جے پی الائنس میں کئی معاملات پر اختلافات رہے ہیں لیکن اس معاملہ پر کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ بھاجپا وزراءکے تیور اور کھٹوعہ عصمت ریزی و قتل کیس میں مجرمین کے حق میں جموںمارچ کے دوران حکمران جماعت بی جے پی کے2 وزراءکی شمولیت کے پر سنیئر پی ڈی پی لیڈر اور وزیر تعلیم سید الطاف بخاری نے کہا ہے کہ چاہیے کچھ بھی ہو اس کیس کو عنقریب منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ انسانی مسئلے پر سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے بچوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، تحقیقات میں کوئی لحاظ نہیں ہوگا، کون کس کیساتھ کھڑا رہتا ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کسی چیز کو نہیں چھپایا جائیگا چاہیے حکومت کو کچھ بھی کرنا پڑے۔حتیٰ کہ اگر اقتدار سے علیحدہ بھی ہونا پڑے۔وزیر اعلیٰ نے یہ کیس کرائم برانچ کے سپرد کیاہے اور یہی جان کر کہ شفاف تحقیقات ہو، کیونکہ بچوں کے معاملے پر کوئی سیاست نہیں کرے گا۔اس بدقسمت واقعہ کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے،اور مجھے نہیں لگ رہا ہے کہ اس پر سیاست کی کوئی گنجائش موجود ہے“۔وزیر تعلیم نے کہا کہ ریاست کی پیشہ وارانہ پولیس اس دلدوز قتل اور زیادتی کے کیس کی سنجید گی سے تحقیقات کررہی ہے۔جو لوگ اس پر سیاست کر رہے ہیں وہ قطعی طور پر ریاست یا ملک کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔
بھاجپا کے ترجمان پروفیسر وریندر سنگھ نے تو حد ہی کر دی ، جن کا کہنا ہے کہ سننے میں آیا ہے کہ بچی کا اغوا، عصمت دری اور قتل خود اس کے گھر والوں نے ہی کیا ہے، جان بوجھ کر دوسرے طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایاجارہا۔وریندر سنگھ کا یہ بھی کہنا تھاکہ سی بی آئی انکوائری ہونی چاہئے لیکن وہ آصفہ کے قاتلوں کا پتہ لگانے کے لئے نہیں بلکہ پولیس کے خلاف ہونی چاہئے جنہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، مار پیٹ اور ہندو¿ طبقہ کے لوگوں کو ہراساں کیا ہے۔نیشنل پینتھرزپارٹی چیئرمین ہرشدیو سنگھ نے بھاجپا اور پی ڈی پی پر سیاست کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ پی ڈی پی ایک طبقہ کے لوگوں کے حق میں ہے کہ اس کو ووٹ ملے گا، وہیں بی جے پی بھی غلط کردار ادا کر رہی ہے۔بی جے پی اقتدارمیں ہے، مرکز میں بھی، تو پھر سی بی آئی انکوائری کیوں نہیں کرائی جارہی، لوگوں خو بیوقوف بنایاجارہاہے۔کانگریس لیڈران کی طرف سے اس واقعہ پر طرح طرح کی بیان بازیاں سامنے آرہی ہیں۔بھاجپا کی طرف سے معصوم 8سالہ آصفہ کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کو سیاسی اور مذہبی رنگت دینے والوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے پر تشویش اور برہمی کا اظہارکرتے ہوئے نیشنل کانفرنس جنرل سیکریٹری علی محمد ساگرنے اس سارے معاملے کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی کی مہربانی سے ایک ایسی جماعت ریاست کے اقتدار پر براجمان ہوئی ہے جس کے 2وزرائعصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہیں اور اس معاملے کو مذہبی رنگت دینے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھتے ہیں۔ان کے مطابق اگرچہ رپورٹوں کے مطابق اس گھناونے جرم میں ملوث ملزم نے اقبالِ جرم کیا ہے تو اس میں سی بی آئی انکوائری کی مانگ کرنے کا کیامقصد ہے؟ ا±ن کا کہنا تھا کہ محبوبہ مفتی کی کابینہ کے 2وزراءقاتل کی حمایت میں آگے آتے ہیں اور وزیرا علیٰ خاموش تماشائی کا رول ادا کررہی ہیں۔ قتل ملزمان کی حمایت میں منعقدکی گئی ریلی میں بی جے پی سے وابستہ دوسینئر وزرا کی شمولیت کوسی پی آئی (ایم) ریجنل کمیٹی کے سیکریٹری شام پرشادکیسرنے مجرمانہ فعل کومذہبی رنگت دینے کوافسوسناک قرار دیا ہے۔کیسرنے کہاکہ معصوم بچی کی عصمت ریزی اورقتل کے معاملے کومذہبی رنگت دے کرکچھ لوگوں کی جانب سے آئے روز متنازعہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔یکم مارچ کوہیرانگرکے کوٹاگاﺅں میں ہندوایکتامنچ کی جانب سے منعقدہ ریلی میں بی جے پی کے دوسینئروزرا نے شرکت کی اورانہوں نے پولیس سے کہاکہ وہ کسی کوبھی گرفتارنہ کرے اورساتھ ہی یہ بھی کہاکہ کرائم برانچ کی تحقیقات جس کی نگرانی ریاستی ہائی کورٹ کررہی ہے ’جنگل راج‘ ہے۔ کیسرنے سوال کیاکہ اگریہ جنگل راج ہے تو یہ دووزراءکس حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں۔
جموں شہر میں جگہ جگہ سڑک کنارے دیواریوں پر لکھاگیاہے کہ” Go Rohangia GO back“۔چیمبر و انڈسٹری ایسو سی ایشن ، شیو سینا اور جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی نے تو جموں کے چند اخبارات میں صفحہ اول پر فل پیج اشتہارات بھی دیئے ہیں جن میں جموں کے لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو یہاں سے باہر نکالنے کے لئے متحد ہوجائیں۔جموں کے سنجواں علاقہ میں آرمی بریگیڈپر ہوئے حملہ کے بعدبی جے پی ترجمان بریگیڈئر انیل گپتاجوکہ خود کو خود ساختہDefence Analystکہتے ہیں، نے ایک انگریزی روزنامہ میں لکھے کالم میں پورے جموں شہر کے مسلمانوں کے خلاف ہی زہر اگلا۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ ،دانشورافراد بھی منافرت وتعصب کی عینک سے حالات وقعات کو دیکھ رہے ہیں۔ حکومت جس کی اولین ذمہ داری امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ کو قائم ودائم رکھنا ہوتی ہے وہ خود ہی اس وقت حالات کو خراب کرنے پر تلی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران، اراکین قانون سازیہ اور وزراءاس وقت اس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، جیسے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں اور حزب اختلاف میں ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر وہ سماج دشمن عناصر کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔وکلاءبرادری جن کا سماج میں بڑا اہم رول ہوتا ہے اور ان سے توقع رہتی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کر کے حالات کو تمام پہلوو¿ں سے دیکھیں گے لیکن ایسے نازک حالات میں یکطرفہ رویہ اور رول خطرناک حالات کی پیشن گوئی کر رہاہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق آصفہ کے مجرمین کے حق میں اور روہنگیائی مسلمانوں کو جموں بدرکرنے کی مہم پر قابوپانے کے لئے فی الفور حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو عین ممکن ہے کہ حالات سنگین رُخ اختیار کریں اور پھر اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ دفعہ370، دفعہ35-A اور روہنگیاکو بدرکرنے کے لئے عدالت عظمیٰ میں جو عرضیاں التواءمیں پڑی ہیں، ان کی سماعت ہواور پوری ریاست میں اُبال آئے تاکہ ایسی صورتحال پیدا ہوکہ لوگ تعمیر وترقی، روزمرہ کے مشکلات ومسائل کے حل کو بھول کر ایکبار پھر ’فرقہ پرستی ‘لہر کا شکار ہوکر ووٹ ڈالیں۔اس وقت جوحالات ہیں وہ بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں، لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جموں وکشمیر ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری، مذہبی یگانگت کی مضبوطی ، اس ریاست کی وحدانیت اور سالمیت کے لئے ہر کوئی اپنا مثبت رول ادا کرے۔اتفاق واتحاد، یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ میں ہی ہم سب کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ ہر معاملہ کو تعصب اور منافرت کی عینک سے دیکھنا ہمارے خود کے لئے بھی اور مجموعی طور پر اس ریاست کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ :مضمون نگار وکیل اور صحافی ہیں
[email protected]