30گھنٹے طویل کرن نگر تصادم اختتام پذیر 2جنگجوجاں بحق مہلوک جنگجو کا تعلق لشکر طیبہ سے ، شناختی عمل جاری: پولیس

یو ا ین آئی
سری نگر// سری نگر کے کرن نگر علاقہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) بٹالین ہیڈکوارٹر کے نزدیک ایک زیر تعمیر کمرشل بلڈنگ میں محصورجنگجوو¿ں اور سیکورٹی فورسز کے مابین قریب 30 گھنٹوں تک جاری رہنے والا مسلح تصادم منگل کو دوپہر کے وقت لشکر طیبہ کے دو جنگجوو¿ں کی ہلاکت پر ختم ہوگیا ۔ اس مسلح تصادم میں پیر کے روز ریاست بہار سے تعلق رکھنے والا ایک سی آر پی ایف کانسٹیبل مجاہد خان ہلاک جبکہ ریاستی پولیس کا ایک کانسٹیبل زخمی ہوا تھا۔ ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’مسلح تصادم کے مقام سے دو جنگجوو¿ں کی لاشیں اور ہتھیار برآمد کئے گئے ہیں۔ بغیر کسی بڑے نقصان کے اس آپریشن کو کامیاب بنانے پر اپنے جوانوں کو مباکباد پیش کرتا ہوں‘۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ عمارت میں محصور دونوں جنگجوو¿ں کو منگل کو دوپہر کے وقت ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے جنگجوو¿ں کو مار گرانے کے لئے یو بی جی ایلز اور مارٹروں کا استعمال کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا ’عمارت میں محصور جنگجو اپنی پوزیشنیں بار بار تبدیل کررہے تھے جس کی وجہ سے ان کو مار گرانے میں کچھ زیادہ وقت لگا‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس مسلح تصادم کے دوران شہریوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جس زیر تعمیر کثیر منزلہ عمارت میں جنگجو محصور تھے، کو یو بی جے ایلز اور مارٹروں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنگجوو¿ں کی طرف سے یہ حملہ جموں میں سنجوان ملٹری اسٹیشن پر فدائین حملے کے دو دن بعدکیا گیا ۔ جنگجو تنظیم لشکر طیبہ نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ عمارت میں محصور جنگجوو¿ں کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ انتظامیہ نے کسی بھی طرح کی افواہ بازی کو روکنے کے لئے پورے ضلع سری نگر میں تیز رفتار والی تھری جی اور فور جی موبائیل انٹرنیٹ خدمات پیر کے روز سے منقطع کر رکھی ہیں۔ مسلح تصادم کے مقام پر جنگجوو¿ں کی حمایت میں سامنے آنے والے احتجاجیوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی جانب سے پیر کو آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس دوران کشمیر زون کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سوئم پرکاش پانی نے منگل کو یہاں ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کو مسلح تصادم کی تفصیلات فراہم کیں۔ اس موقع پر سی آر پی ایف کے انسپکٹر جنرل روی دیپ سنگھ ساہی اور دوسرے سینئر سیکورٹی عہدیدار بھی موجود تھے۔ ایس پی پانی نے کہا ’ 12 فروری کوعلی الصباح چار بجکر 45 منٹ پر 23 بٹالین سی آر پی ایف کیمپ میں سنتری ڈیوٹی پر تعینات ایک اہلکار نے کچھ مشتبہ نقل وحرکت دیکھی۔ سنتری نے ان افراد کو للکارا۔ وہ وہاں سے فرار ہوگئے اور اس طرح سے کیمپ پر حملے کو ناکام بنایا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سی آر پی ایف اور پولیس نے پورے علاقہ کو گھیرے میں لیا ۔ گھروں کی تلاشی لینا شروع کی گئی۔ تلاشی مہم کے دوران ایک زیر تعمیر پانچ منزلہ عمارت سے فائرنگ کی گئی۔ اس عمارت کو فوری طور پر محاصرے میں لیا گیا۔ پانی نے کہا کہ ابتدائی فائرنگ میں ایک سی آر پی ایف اہلکار جاں بحق ہوا۔ انہوں نے کہا ’آپریشن ختم ہوچکا ہے۔ اس میں دو جنگجوو¿ں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ ان کے قبضہ سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مہلوک جنگجوو¿ں کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ ان کے قبضے سے ملنے والی چیزوں سے بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران ریاستی پولیس کا ایک اہلکار گولی لگنے سے معمولی زخمی ہوا۔ اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کا شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال میں علاج چل رہا ہے۔ آئی جی کشمیر نے اہلیان سری نگر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’چونکہ یہ آپریشن ایک گھنی آبادی میں ہورہا ہے تھا، اس کے پیش نظر سب سے پہلے وہاں موجود لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ اہلیان سری نگر نے ہمارے ساتھ تعاون کیا جس کے لئے ہم ان کے شکر گذار ہیں۔ یہ ایک کلین آپریشن ثابت ہوا۔ اس کے دوران کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا‘۔ آئی جی سی آر پی ایف ساہی نے کہا کہ مسلح تصادم کے مقام سے دو اے کے رائفلیں اور ان کے آٹھ میگزین برآمد کئے گئے ہیں۔ سی آر پی ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ابتدائی فائرنگ میں 49 بٹالین سی آر پی ایف کانسٹیبل مجاہد خان شدید طور پر زخمی ہوا، اور وہ بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر وید نے سی آر پی ایف کو فدائین حملہ ناکام بنانے کے لئے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’میں فدائین حملہ ناکام بنانے کے لئے سی آر پی ایف کے سنتریوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘۔ یہ مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال سے پاکستانی جنگجو نوید جٹ کے فرار ہونے کے واقعہ کے بعد سری نگر میں پہلا مسلح تصادم تھا۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ مسلح تصادم کا مقام ایس ایم ایچ ایس اسپتال سے محض دو سو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یو اےن آئی