قانون سازیہ کے تئیں حکومت کی غیرسنجیدگی ! عوامی حلقوں میں’لیجسلیچرز ‘کی گھٹتی مقبولیت نیک شگون نہیں

قانون سازیہ کے تئیں حکومت کی غیرسنجیدگی !
عوامی حلقوں میں’لیجسلیچرز ‘کی گھٹتی مقبولیت نیک شگون نہیں

الطاف حسین جنجوعہ
9697069256
جمہوری نظامِ حکومت میں قانون سازیہ یعنی’ Legislative‘کا نہ صرف اہم رول ہوتا ہے بلکہ اِس کو ہرلحاظ سے باقی دو حکومتی سطونوںایگزیکٹیو(انتظامیہ)اور جوڈیشری(عدلیہ)پربالادستی بھی حاصل ہے۔جمہوریت میں چونکہ حکومت لوگوںکے ذریعہ، لوگوںکی اور لوگوںکے لئے ہوتی ہے، اس لئے قانون سازیہ کی مضبوطی وبلندی تقاضا بھی ہے، تبھی جاکر لوگوں کی فلاح وبہبودی یقینی بن سکتی ہے۔ منتخب نمائندگان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ و ہ، اُن لوگوں جنہوں نے انہیں چن کر اسمبلی یاکونسل میں بھیجا ، اُن کی نہ صرف بھرپورنمائندگی کریں بلکہ ساتھ ہی ان کے مسائل ومشکلات کا بروقت ازالہ بھی کرایاجائے ۔جموں وکشمیر قانون سازیہ جس کا علیحدہ سے’ آئین اور جھنڈا‘ ہے، کاہندوستان بھر میں منفرد اور خصوصی مقام ہے اور اس کو ملک بھر میں سب سے طاقتور لیجسلیچر ماناجاتاہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس مقدس ایوان کی عظمت ، قدر واہمیت بھی متاثر ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ اقتدار میں رہنے والی جماعتیں زیادہ ذمہ دار رہی ہیں، وہیں کچھ حد تک اراکین قانون سازیہ بھی اپنے اختیارات، فرائض اور رول کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے ہیں۔جمہوری نظام ِ حکومت میں یہ لازمی ہے کہ قانون سازیہ کے اجلاس ،اسمبلی کے اندریا باہر منتخب عوامی نمائندگان(ایم ایل اے/ایم ایل سی)جو بھی مسائل ومشکلات اجاگر کریں، تجاویزدیں اور سفارشات پیش کریں، ان پر حکومت اولین فرصت وترجیحی بنیادوں پر عمل کرے لیکن ایسا نہ کئے جانے سے ’لیجسلیچر ‘کی اہمیت ومقبولیت عوامی حلقوں میں کم ہوتی جارہی ہے جوکہ جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں۔راقم کو سال 2010سے لگاتار بجٹ اجلاس کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،9سال کے مشاہدات اور تجربات سے معلوم ہوا کہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور ووٹ بنک سیاسست کے لئے اقتدار میں آنے والی جماعتیں خود ہی اس معزز ومقدس ایوان کو کمزور کرتی جارہی ہیں جس میں سبھی جماعتیں چاہئے وہ نیشنل کانفرنس، کانگریس ہو یا پھر اِس وقت برسراقتدارپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہوں ،نے کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ اجلاس کے دوران ممبران کو بار ہا حکومت کی نوٹس میں مسائل لانے کے باوجود ان پر کارروائی نہ ہونے پراظہارِ بے بسی کرتے دیکھاجانا واقعی ہم سب کے لئے حیرانگی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اجلاس کے دوران ممبران جوسوالات پوچھتے ہیں، اس کے جواب میں حکومت حقیقی صورتحال، اعدادوشمار سے پورے ایوان کو آگاہ کرے لیکن اکثر دیکھنے میںآیاہے کہ حکومت پہلے تو جواب ہی مکمل طور تروڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے یا پھر ادھوری معلومات دی جاتی ہیں، ہمیشہ حکومت کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، چونکہ ممبران کی طرف سے سوالات کا جواب متعلقہ محکمہ جات کے کمشنر سیکریٹری/انڈر سیکریٹری/ڈپٹی ڈائریکٹر یا وائس چیئرمین دیتے ہیں، اس لئے اُن (افسران)کی کوشش رہتی ہے کہ ایسی کوئی بھی انفارمیشن یا اعدادوشمار باہر نہ آئیں جس سے اُنگلی اُن پر اٹھے کیونکہ انہوں نے تو محکمہ میں پوری عمر گذار کر کارستانیاں کی ہوتی ہیں جبکہ وزیر تو چھ برس یا اس سے بھی کم مدت کے لئے ہوتے ہیں۔ اب یہ متعلقہ وزیر /منسٹرکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اپنے ماتحت محکمہ جات سے متعلق جو بھی سوال ہو، اس کا صحیح اور حقائق پر مبنی جواب اسمبلی میں آئے۔ رواں بجٹ اجلاس کے دوران قانون ساز کونسل (ایوانِ بالا)اور قانون ساز اسمبلی(ایوانِ زیریں) میں کوئی بھی ممبر ایسا نہ دیکھاگیاجوکہ حکومت کی طرف سے دیئے گئے جواب سے کلی طور مطمئن ہوا ہو۔حزب اختلاف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے علاو ہ حکمراں جماعتوں ڈی پی اور بی جے پی کے ممبران نے بھی پارٹی سیاست سے اُوپر اٹھ کر جواب صحیح نہ ملنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور بارہا یہ بات کہی کہ سوال کو Deferکر کے ، حکومت مکمل جواب کے ساتھ ایوان میں آئے مگر وزراءکے کان تک جوں نہ رینگی اور وہ اس پر اٹل رہے کہ جووہ کہہ رہے ہیں وہی پتھر کی لکیر ہے۔ممبران نے زیادہ تر سوالات اپنے متعلقہ اسمبلی حلقہ یا ضلع کی تعمیر وترقی سے متعلق پوچھے ہوتے ہیں اور وہ جس محکمہ کے بارے میں سوال پوچھے ہوتے ہیں، اس کی زمینی حقیقت سے کافی حد تک واقف ہوتے ہیں، پر پھر انہیں ایوان کے اندر مکمل طور اُلٹ جواب ملے تو ان کی ناراضگی بجا ہے۔بجٹ اجلاس 2018-19کے دوران اب تک کوئی دن ایسا نہ گذرا ہے جب وقفہ سوال کے دوران یا توجہ دلاو ¿ تحریک کے جواب میں حکومت کی طرف سے جو جواب دیاگیاہو، اس سے ممبران مطمئن ہوئے ہوں، مختصر یہ کہ حکومت ایک بھی ممبر کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہی ہے اور ہر جواب میں حقائق کو چھپانے اور تروڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اسمبلی اور کونسل کے اندر ممبران جومسائل اٹھاتے ہیں، ا ن پر کم سے کم مدت میں کارروائی کرنی ہوتی ہے لیکن کئی کئی برس گذرجانے کے بعد بھی کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ درجنوں ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور سبھی کا ذکر کیا جائے تو اس پر مکمل کتابچہ تحریر ہوسکتا ہے۔ چند ایک کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے آپ کو انداز ہوگاکہ وہ ایم ایل جس کو منتخب کر کے آپ یہاں بھیجتے ہیں، اس کی سنوائی کتنی ہے اور اس کو حکومت کتنی سنجیدگی سے لیتی ہےنیشنل کانفرنس کے ممبرقانون ساز کونسل ماسٹر نورحسین جن کا تعلق سانبہ ضلع سے ہے، نے اپنی چھ سالہ مدت کے دوران ہراجلاس (بجٹ/خزاں)کے دوران سوالات، توجہ دلاو ¿ تحریک ، وقفہ صفر اور ضمنی سوالات میں کم سے کم 50مرتبہ سانبہ ضلع میں ”اردوٹیچر“نہ ہونے کا معاملہ زور وشور سے اُٹھایااور مطالبہ کیاکہ سرکاری اسکولوں میںاردو ٹیچروں کی تعیناتی عمل میںلائی جائے کیونکہ ریاست کی سرکاری زبان نہ جانے سے طلبہ وطالبات کو آگے بڑی مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے، مگر افسوس کہ آج تک اس سانبہ ضلع میں اردو ٹیچروں کی تعیناتی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ماسٹر نورحسین اب ایم ایل سی نہیں ہیں لیکن ان کے لئے یہ بات زندگی بھر کھٹکتی رہے گی کہ ایوان قانون سازیہ میں بھی جاکر وہ اس چھوٹے سے مسئلہ کو حل نہ کراسکے۔ سال2013کی بھاری برف باری اور پھر ستمبر2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران پونچھ ضلع کو جانے والی 132کے وی ٹرانس میشن لائن کی بحالی کامعاملہ ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگوں، دیگر جائزہ اجلاس کے علاوہ پونچھ سے تعلق رکھنے والے ممبران نے کونسل اور اسمبلی میں سینکڑوں مرتبہ اُٹھایا، اس پر سوالات بھی پوچھے ، رواں اجلاس کے دوران بھی چار سوالات تھے، مگر آج تک وہ ٹرانس میشن لائن بحال نہ ہوسکی ہے۔اکثر یہ دیکھاگیاکہ ممبران سوالات پوچھتے ہیں یاایوان کے اندر کوئی معاملہ اجاگر کرتے ہیں،تو اس وقت پہلے تو متعلقہ وزیر ہوتا ہی نہیںِ اگر کوئی منسٹر موجود بھی ہوتا ہے وہ فون میں گھسے رہتے ہیں ، ممبر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، دوسری اور افسر گیلری بھی خالی ہوتی ہے۔ تو مسائل نوٹ کون کرے اور اس کا حل کون کرے گا یہ سمجھ میں نہیں آتا۔اس سے بڑی حیرانگی اور لمحہ فکریہ کا مقام کیا ہوسکتا ہے کہ سابقہ وزیر اعلیٰ کی شکایت پر بھی حکومت عمل نہیں کرتی۔ سال گذشتہ نیشنل کانفرنس کارگذار صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایوان میں بڈگام ضلع کے ایک افسر سے متعلق شکایت کی کہ وہ جانبداری سے کام کر رہا ہے جس سے لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے، لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن ایک سال گذر جانے کے بعد بھی اس شکایت پر کوئی عمل نہ ہوا اور یہ معاملہ این سی سے وابستہ ہی ایک ممبرنے پچھلے دنوںدوبارہ ایوان میں اُٹھایا۔ ایک حکومت کے لئے اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔قانون ساز اسمبلی/کونسل کے مقدس ایوان اور ایم ایل اے /ایم ایل سی کو مذاق بناکر رکھ دیاہے۔ایک دہائی قبل تو بہت کم ہی لوگوں کو پتہ چلتا تھاکہ اسمبلی اجلاس کے دوران ان کے ممبرنے کیاکیا ….؟مگر اب جبکہ انٹرنیٹ، ڈیجیٹل کی اس تیز ترار دنیامیں لوگ فوری جان جاتے ہیں کہ اسمبلی اور کونسل کے اندر کیاہورہاہے۔ حکومت کی اس قدر غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کی وجہ سے عوام میں اس مقدس ایوان کی مقبولیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور ان کی دلچسپی بھی کم ہوتی جارہی ہے، ایسا ہونا بجا بھی ہے کہ اگرایوان کے اندربھی مسائل اجاگر کرنے پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو پھر اس میں دلچسپی رکھنے کا بھی کیافائیدہ….؟۔پارلیمانی امور محکمہ کے مطالباتِ زر(گرانٹس)کے دوران سی پی آئی (ایم)، پی ڈی ایف، پیپلز کانفرنس، نیشنل کانفرنس، کانگریس، بی جے پی اور پی ڈی پی کے علاوہ آزاد ممبران نے اسمبلی کے کھوتے وقار پر اپنی جوتشویش ظاہر کی وہ حکومت کے لئے چشم کشا اورWarningسے کم نہیں۔پی ڈی پی کے جاویدحسن بیگ کا یہ جملہ بھی (Alarming)ہے، ان کا کہناتھا”ہم یہاں صرف یہاںاس لئے آتے ہیں کہ بجٹ پاس کر کے افسران کو سال بھر عیش وعشرت اور لوٹ کھسوٹ کا موقع فراہم کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ اجلاس کے اندر نشستیں پر خالی تو نہیں۔انہوں نے کہاکہ ایم ایل اے /ایم ایل سے کے ادارہ کو کمزور کرنے کی وجہ سے افسران کی تانا شاہی عروج پر ہے، عام لوگوں کے ساتھ حق تلفی ہورہی ہے، ان کے مسائل حل نہیں ہورہے، جوکہ جمہوری نظامِ حکومت کے لئے خطرہ ہے۔ رام نگر سے بھاجپا ایم ایل اے آر ایس پٹھانیہ نے کہاکہ ایم ایل اے کا رول یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ….جو اس کے حق میں ہے، وہ ’ہاں‘کہے اور جو حق میں نہیں وہ ’نا‘کہے بلکہ ایوان کے اندر جو بھی مسائل ، قانون، قرار داد زیر بحث آئے ، اس میں پارٹی سیاست سے بالاترہوکر سبھی ممبران کو اپنی رائے، تجاویز پیش کرنے کا حق ہوتاکہ ایوان سے جوبھی قانون یا قرار داد پاس ہواس میں ریاست کے سبھی ممبران کی رائے شامل ہو۔پیپلز کانفرنس کے ایم ایل اے ایڈوکیٹ بشیر احمد ڈار نے اسمبلی کے اندر جورونا رویا، وہ بھی Legislative Instituteکو کمزور کرنے کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کا کہناتھا”ایم ایل اے بن کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کر دی کیونکہ ہرلحاظ سے ان کے ہاتھ بندھے ہیں، ان کی کوئی سن کر راضی نہیں، لوگوں کے لئے کچھ کر نہیں پارہے، اب کریں تو کریں کیا“۔غور طلب ہے کہ پالیسیاں، منصوبے، قواعد وضوابط کا مسعودہ افسران تیار کرتے ہیں، اس لئے ہرجگہ وہ اپنی بالادستی، لوٹ کھسوٹ کی بھرپور گنجائش رکھتے ہیں،افسران کی اس چال کوناکام بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اراکین قانون سازیہ اپنے اختیارات، رول کو بخوبی نبھائیں اور اس موڑ پرکسی خامی نہ گنجائش نہ رکھیں۔حکمراں جماعتوںکو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ’افسران‘کی چالبازیوں کا شکار نہ ہوکر اس ادارہ کو مضبو ومستحکم بنانا ہوگانہیں توجمہوری نظامِ حکومت کے اس مقدس ادارہ کی کمزوری کا مطلب عوام کو کمزور بناناہے جوکہ پہلے ہی ظلم وستم، نا انصافیوں کی چکی میں پس رہے ہیں، جو تھوڑی بہت آس بچی ہے وہ کھوجائے گی۔ساتھ ہی ساتھ ایک ایم ایل اے /ایم ایل سی کو بھی انفرادی طور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اپنے عہدہ سے انصاف کرپارہے ہیں….؟کیا وہ اپنی ذمہ داریوں کوغیر جانبدارانہ طریقہ سے نبھا رہے ہیں….؟ کیا وہ چند مفادات کی خاطر عوامی منڈیٹ کا کہیں سودا تو نہیں کر رہے ….یا کیا کہیں سرمایہ کار،صنعتکار اس کا فائیدہ اٹھاکر عوام لوگوں کا استحصال تو نہیں کر رہے……..؟؟؟
٭٭٭٭٭
نوٹ: مضمون نگارصحافی اور وکیل ہے
ای میل:[email protected]