کشمیر کے حالات میں کوئی سدھار نہیں حکومت اگر شہری ہلاکتوں کو مسئلہ نہیں مانتی تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں :عمر عبداللہ

رحمت اللہ رونیال
جموں// حزب اختلاف نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کشمیر میں لوگوں کا سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے اقتدار کی کرسی پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کے حالات میں کوئی سدھار نہیں آرہا ہے اور سیکورٹی فورس و شہری ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاجی لوگوں کے منہ کو نشانہ بناکر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ کھڈوانی کو لگام میں گزشتہ روز مظاہرین پر فورسز کے ہاتھوں ایک 22سالہ نوجوان کی ہلاکت کے معاملہ پر ایوان ِ زیریں میں ہوئے ہنگامہ اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس کا جواب نہ دینے سے ناراض ہو کر دن بھر کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کے بعد اسمبلی کے باہر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن کے پاس بحث کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ان کا جواب تھا’ ’لوگ مررہے ہیں، کیا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ لوگوں کا مرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے کہ اس حکومت کو کرسی پر بیٹھے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’میری حکومت کے دوران اس طرح کے واقعات ہوتے تھے تو میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر کیا گذرتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ شہری ہلاکتیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں خود مانتا تھا کہ یہ مسئلہ ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کا ابھی صرف دوسرا ہفتہ چل رہا ہے اور اس دوران ہی کتنے عام شہری مارے گئے ، کتنے سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔ ’’اگر ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد بھی لگتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ہم بیوقوقف لوگ ہیں اور خوامخواہ شور کرتے ہیں تو پھر شاہد ہم میں ہی کوئی کمی ہے‘‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کے منہ کو نشانہ بناکر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جس نوجوان کو مارا گیا گیا اُس نے کوئی بندوق نہیں اٹھائی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’منسٹر صاحب (عبدالرحمان ویری) نے خود مانا کہ وہ بے گناہ تھا۔ اس کی گردن میں گولی لگی ہے۔ جو زخمی ہوا ہے، اس کے کندھے میں گولی لگی ہے۔ سیدھے مظاہرین کے منہ کو نشانا بنایا جارہا ہے۔ وہ جنگجو ہوتا تو میں مانتا کہ جھڑپ میں مارا گیا۔ حکومت نے کہا کہ وہ بے گناہ تھا ، اس لئے انہوں نے انکوائری صادر کی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حالات سدھر نہیں رہے ہیں حالات میں کوئی سدھار نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ دوسرا ہفتہ چل رہا ہے اور قریب8 سیکورٹی فورس اہلکارمارے جاچکے ہیں جب کہ شہری ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اسمبلی میں بحث کے لئے تحاریک التواء جمع کرائی تھیں لیکن حکومت نے بحث کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دن کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے تحاریک التواء پیش کیں جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کی سیکورٹی صورتحال اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر بحث ہو لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا ’’کل کولگام میں احتجاج کے دوران ایک نوجوان کی موت ہوئی، اس کو لیکر ہم نے آج سرکار سے جواب مانگا۔ ہمیں امید کررہے تھے کہ وزیر داخلہ و یونیفائیڈ ہیڈکوارٹرس کی چیئرپرسن کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ یہاں آکر وہی بات کر یں گی جو ہمیں اخبارات میں ان کے حوالے سے پڑھنے کو ملی ہے۔ لیکن وہ نہیں آئیں۔ وہ اُس وقت آئیں جب میں نے اس معاملے کو ایوان میں اٹھایا، لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ ایوان میں اس ہلاکت پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کریں۔ اور ہمیں یقین دہانی کراتیں کہ وہ ان واقعات کو روکنے کے سمت میں اٹھائیں گی۔ لیکن وہ نہیں آئیں۔ جس کے بعد ہمیں یہ فیصلہ لینا پڑا کہ گورنر صاحب کے خطبہ پر ان کی تقریر کا ہم بائیکاٹ کریں گے‘‘۔