پشاور ہائی کورٹ میں درخواست ’شہید زندہ ہوتا ہے اس لیے ریٹائرمنٹ تک تنخواہیں دیتے رہیں‘

پشاور//(پاکستان)//پشاور ہائی کورٹ میں بدھ کو ایک درخواست کی سماعت ہوئی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ ’شہید زندہ ہوتا ہے اس لیے ان کی شہادت کے بعد بھی حکومت ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات ریٹائرمنٹ کی عمر تک جاری رکھے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز نہ کیا جائے‘۔ایک مقامی وکیل محمد خورشید خان ایڈووکیٹ کی جانب سے دی گئی اس درخواست کی سماعت بدھ کو جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی کی عدالت میں ہوئی۔ عدالت نے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اور صوبائی سیکرٹری فنانس کو نوٹس جاری کیے ہیں کہ وہ 15 روز کے اندر اس کا جواب دیں۔محمد خورشید خان ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ’شہید کا رتبہ اعلیٰ ہے اور پولیس کے شہدا پیکج میں تفریق برتی جارہی ہے اس لیے عدالت میں یہ بتایا جائے کہ پولیس اہلکاروں کو شہدا کے کیا پیکجز دیے جا رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس میں امتیاز نہیں برتنا چاہیے‘۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مشاہدے کے مطابق ہلاک ہونے والے بعض سپاہی رینک کے پولیس اہلکاروں کے خاندان والے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کچھ بیوائیں مسلسل دفاتر کے چکر لگاتی رہتی ہیں تاکہ انھیں ان کے رقوم کی ادائیگی ہو سکے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے انھوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ حکومت ہر ضلعے کی سطح پر ایک ایسا افسر مقرر کرے جو ان پولیس اہلکاروں کے خاندان والوں کو ان کے پیکجز اور رقوم باقاعدگی سے ان کے گھروں میں پہنچانے کا کام کریں تاکہ متاثرہ خاندان کی مشکلات میں کمی ہو سکے۔اس کے علاوہ بدھ کو ہی تیراہ میں بمباری سے ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے پیکجز کے مقدمے کی سماعت بھی چیف جسٹس کی عدالت میں ہوئی۔عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ جن کے مکان تباہ ہوئے ہیں یا جو لوگ زخمی ہوئے تھے ان کو معاوضہ ادا کیا جائے۔یہ واقعہ سنہ 2010 میں خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں پیش آیا تھا جس میں 60 افراد ہلاک اور 84 زخمی ہوگئے تھے۔ حکومت نے ہلاک ہونے والے افراد کو معاوضہ ادا کر دیا تھا لیکن زخمیوں اور جن کے مکان تباہ ہوئے تھے انھیں ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔