سول سروس میں امتیازی مقام پانے والوں کی اُڑان کے ساتھ ملاقات

’ذاتی مطالعہ کامیابی کی کلید ثابت ہوئی‘
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاستی سطح کے سول سروسزمسابقتی امتحان KASکے اس مرتبہ کے نتائج نے کئی ریکارڈ توڑے، ابہام ومعمہ اور شکوک وشبہات کو دور کیا۔ اس مرتبہ کے نتائج کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں زیادہ تر کامیاب امیدواروں کا تعلق ریاست جموں وکشمیر کے ان دور دراز علاقہ جات سے ہے، جہاں پر بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں۔بیشتر امیدواروں کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکولوں سے ہوئی ہے۔ بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے کوئی کوچنگ وغیرہ حاصل نہیں کی بلکہ خود ذاتی طور مطالعہ کا مطلوبہ مواد جمع کر کے اور انٹرنیٹ کا بھر پور فایدہ اٹھاکر کامیابی کے اس اہم زینے کو عبور کیا۔ پہلا مقام خطہ پیر پنجال اور دوسری وتیسری پوزیشن خطہ چناب کے امیدواروں نے حاصل کی۔تینوں کا تعلق دور دراز علاقہ جات سے ہے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکولوں سے ہوئی۔
انجم خان خٹک
سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے دور درازگاو¿ں موہڑہ بچھائی سے تعلق رکھنے والے انجم خان خٹک جوکہ ریاستی سول سروسز امتحان میں اول رہے، نے کوئی بھی مخصوص کوچنگ حاصل کی اور نہ ہی گھنٹوں پڑھائی کی بلکہ معمول کے مطابق پڑھائی اور معیاری مطالعے کے تسلسل کو بنائے رکھا۔ریٹائرڈ لیکچرر بشیر احمد خان اور مڈل سکول ٹیچر غلام فاطمہ کے فرزند انجم خان نے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ انجم نے ابتدائی تعلیم چوتھی کلاس تک سرسوتی سیوا سدن اکیڈمی المعروف شامہ اکیڈمی سرنکوٹ سے حاصل کی۔ اس کے بعد دسویں شنگریلا پبلک سکول جموں سے 87فیصد نمبرات کے ساتھ کی۔ بارہویں رنبیر ہائر اسکینڈری سکول جموں سے72فیصد نمبرات اور بی ٹیک کمپیوٹر سائنسز میں68فیصد نمبرات کے ساتھ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری سے حاصل کی۔ بی ٹیک کرنے کے بعد وہ سال 2014میں جنرل لائن ٹیچر منتخب ہوئے۔ اس وقت وہ تحصیل سرنکوٹ کے گورنمنٹ ہائر اسکینڈری سکول گونتھل میں بطور مدرس اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ انجم خان سرنکوٹ کے پٹھان قبیلہ سے اس مقام تک پہنچنے والے پہلے شخص ہیں۔ ان کے والد بھی سال 1988میں پبلک سروس کمیشن کا لیکچرر امتحان پاس کرنے والے پہلے شخص تھے۔انجم کی ہمشیرہ بھی جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچرروں کے لئے لئے گئے امتحانات میں سرفہرست رہیں۔ اڑان کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں انجم خان نے بتایاکہ آٹھویں کلاس سے ہی انہوں نے KASامتحان پاس کرنے کا ارادہ کر لیاتھا اور تبھی سے وہ اخبارات، معلومات عامہ کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔انجم خان نے بتایاکہ انہوں نے کہیں سے کوچنگ حاصل نہیں کی۔ ان کے مضامین پبلک ایڈمنسٹریشن اور اینتھرپولوجی تھے۔وہ کہتے ہیں”بچپن سے میری عادت ہے کہ میں کسی بھی موضوع پر اپنے خود کے نوٹس تیار کرکے پڑھتا ہوں، کے اے ایس کے لئے بھی سارا مواد مطابق نصاب جمع کر کے میں نے اپنے حساب سے مختصر ومعیاری نوٹس تیار کئے پھر انہیں دلچسپی کے ساتھ پڑھا، ذہین نشین کیا“۔انجم خان کہتے ہیں”یہ سب Mythہے کہ آپ دس گھنٹے، بارہ گھنٹے پڑھو تو پھر ہی سول سروسز امتحانا ت میںکامیاب ہوں گے، اگر ایسا ہوتا تو پھر میں تو پاس بھی نہیں ہوتا، میں نے کبھی شام کو 11بجے کے بعد پڑھائی نہیں کی، اس طرح کے امتحانات میں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ آپ جوابی پرچہ پر جو لکھتے ہو ، وہ کتنا معیاری ہے ، پریزنٹیشن(پیشکش)بہت زیادہ معنی رکھتی ہے۔ آپ کم سے کم لکھو، معیاری لکھو ، اس پر آپ کو نمبرات ملتے ہیں، الحمدللہ میری پریزنٹیشن میرے حساب سے بہت بہتر تھی، یقین نہیں تھا کہ صف اول میں رہوں گا البتہ اتنا بھروسہ تھا کہ کامیاب ہوجاو¿ں گا“۔انجم نے مزید بتایااپنے آپ پر اعتماد ہونا چاہئے،منزل مقصودتک پہنچنے کا مقام واضح ہو اور اس کے لئے تندہی، محنت ولگن، دیانتداری اور خلوص سے جوتوڑ کوشش کی جائے“۔انہوں نے مزید بتایا”میرے والد جو کہ اب ٹھیکیداری کا کام کرتے ہیں ، نے مجھے بھی یہی کرنے کو کہا لیکن میں رشوت کے سخت خلاف ہوں اور میں چاہتا تھا کہ ایسی نوکری ملے جہاں مجھے اچھی خاصی تنخواہ ملے، کرپشن کرنے کی نوبت نہ آئے اور میں اس منصب سے لوگوں کی خدمت کرسکوں، ایسا کرنے کے لئے KASسب سے بہترین اور اول چوائس تھی، اور میں نے حتمی فیصلہ کر لیا کہ میں یہی کرو¿ں گا، والدین نے بھرپور ساتھ دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم، والدین کی دعاو¿ں، دوستوں ، احباب ورشتہ داروں کی نیک خواہشات سے آج میں اس مقام پر پہنچا“۔انجم خان جن کی رواں برس کے جولائی ماہ میں ہی ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے شادی ہوئی ہے، نے بتایاکہ ان کی اہلیہ نے ان کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی، رہنما ئی کی اور بھر پورساتھ دیا جو کہ انتہائی قابل ستائش ہے۔کے اے ایس کے خواہشمند نوجوانوں کے لئے اپنے پیغام میں انجم خان نے کہاکہ ”نصاب کے مطابق مواد جمع کرو، تسلسل سے پڑھو اوردل وجان سے محنت کرو¿، عارضی پڑھائی نہیں بلکہ پوری توجہ کے ساتھ انشا اللہ کامیابی ضروری ملے گی“
عالیہ تبسم
خطہ چناب کے ضلع کشتواڑ کے در دراز علاقہ چھاترو سے تعلق رکھنے والی عالیہ تبسم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پہلی مرتبہ وہ سال 2012 میں مذکورہ امتحان میں شامل ہوئیں جس میں وہ انٹرویو تک پہنچی لیکن کامیاب امیداروں کی فہرست میں جگہ نہ پاسکیں۔ سال 2013میں دوسری کوشش کی پھر انٹرویو سے ڈراپ ہوگئیں اور اب سال2014کے امتحان میں تیسری کوشش میں انہوں نے نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے اوپن میرٹ میں1475.56نمبرات حاصل کئے۔ عالیہ تبسم کے والد محکمہ خوراک وعوامی تقسیم کاری سے بطور تحصیل سپلائی افسر جبکہ والدہ محکمہ دیہی ترقی سے بطور بلاک ڈولپمنٹ افسر سبکدوش ہوئی ہیں۔ ان کی ہمشیرہ پیشہ سے ٹیچر جبکہ بھائی توصیف وانی ایکسائز انسپکٹر ہیں۔ عالیہ تبسم نے بتایاکہ والدین کی دعاو¿ں اور بھائی توصیف وانی کی بھر پور رہنمائی، مدد، حوصلہ افزائی سے وہ اس مقام تک پہنچیں ہیں۔ عالیہ نے ابتدائی تعلیم چھاتر ومیں ایک گورنمنٹ سکول سے حاصل کی ۔ پھر بارہویں کشتواڑ کے سر اقبال اکیڈمی سے حاصل کی ۔ اس کے بعد جموں یونیورسٹی سے پانچ سالہ قانون کی ڈگری حاصل کی۔ عالیہ تبسم کے مطابق انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل ضروری کی مگر وکالت نہیں کی بلکہ ڈگری کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سے ہی تقابلی امتحان کے لئے تیاری شروع کر دی۔’دی ہندو¿ ‘انگریزی اخبار اور ’دی ویژن آئی اے ایس“کتابیں معلومات عامہ (جنرل نالج)کے لئے انہوں نے قانون کی ڈگری کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی پڑھنا شروع کر لئے تھے ۔ عالیہ تبسم نے اڑان کے ساتھ تفصیلی بات چیت میں بتایاکہ انہوں نے کسی بھی انسٹی چیوٹ سے کوچنگ حاصل نہیں کی بلکہ خود ہی پڑھائی کی، انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال کیاجوبھی میٹریل چاہئے تھا وہ اس کو انٹرنیٹ سے ڈاو¿ن لوڈ کر لیتی تھیں۔ عالیہ کہتی ہیں کہ ”زیادہ دیر تک پڑھناور انسٹی چیوٹ سے کوچنگ حاصل کرنے سے تقابلی امتحان پاس نہیں کیاجاسکتا یہ ہر ایک کی انفرادی شخصیت پر مبنی ہے کہ اس کے اند ر کتنی صلاحیت ہے، کوئی بہت کم عرصہ میں سیکھ لیتا ہے تو کسی کو کئی ماہ لگ جاتے ہیں“۔ وہ کہتی ہیں کہ دیانتدار ی سے انتھک محنت، صبرکا دامن نہ چھوڑنا اور نصاب کے مطابق پڑھنے سے ہی کامیابی ملتی ہے۔دور دراز گاو¿ں کی بچیوں کے لئے اپنے پیغام میں انہوں نے کہاکہ وہ پسماندگی، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، مالی کمزوری اور سماجی پابندیوں کو اپنی منزل کے آڑے نہ آنے دیں بلکہ ہمت ، حوصلہ سے محنت ولگن کر کے آگے بڑھیں ، وہ کہتی ہیں”اگر عالیہ تبسم کے اے ایس کرسکتی ہے تو پھر گاو¿ں کی ہرلڑکی تقابلی امتحان پاس کرسکتی ہے “۔عالیہ تبسم کے مضامین پولیٹیکل سائنس اور اینتھروپولوجی تھے۔
فرید احمد شیخ
1467.00نمبرات حاصل کر کے کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز میں تیسرا مقام حاصل کرنے والے فرید احمد کا تعلق ضلع ڈوڈہ کے سب ڈویژن بھدرواہ کے دور دراز گاو¿ں بروہ ا سے ہے۔ پرائمری تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اسلامیہ فریدیہ سکول کشتواڑ سے 12ویں کی۔ پھر الیکٹریکل انجینئرنگ کے لئے انٹرنس پاس کیا اور جموں یونیورسٹی سے سال 2012میں انجینئرنگ کی۔اس کے بعد سے تقابلی امتحان کے لئے تیاری شروع کر لی سال 2013کو KASجب 99اسامیاں تھیں ، میں وہ انٹرویو تک پہنچے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ پھردوسری کوشش میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا۔این ایچ پی سی کے ڈول ہستی پاور پروجیکٹ میں میکانیک کے طور کام کرنے والے بشیر احمد شیخ کے فرزند فرید احمد کی چھوٹی بہن بھی سول انجینئرنگ میں بی ٹیک کرنے کے بعد سول سروسز امتحان کے لئے تیار کر رہی ہیں جبکہ ایک بھائی این آئی ٹی سرینگر سے بی ٹیک کرنے کے بعد جموں کے ایک نجی تعلیمی ادارہ آکاش انسٹی چیوٹ میں ریاضی کا مضمون سول سروسز کی تیار ی کرنے والے امیدواروں کو پڑھاتے ہیں۔ فرید نے انجینئرنگ 70فیصد نمبرات کے ساتھ حاصل کی۔ فرید نے بتایا وہ گروپ میں پڑھ نہیں سکتے، انہوں نے تنہا ہی اس کے لئے تیار کی۔ ان کے گھر میں تعلیم کا رواج اتنازیادہ نہیں اور پیشہ کھتی باڑی ہے۔ انہوں نے اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ والدین کی دعاو¿ں اور نیک خواہشات سے وہ KASکامیابی حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کوشش رہے گی کہ وہ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر بن کر لوگوں کی خدمت کریں۔فرید کا تعلق ایک ایسے علاقہ سے ہے جہاں پر بنیادی سہولیات دستیاب نہیں، سڑک کی خستہ حالت ہے۔ پھر انہوں نے سب رکاوٹوں کو درکنار رکھ کر پورے خطہ کے لئے قابل فخر کام کیا۔