پاکستانی بچوں کو ویزا دینا سرآنکھوں پر لیکن عمر قیوم تھانے کے اندر علاج سے محروم کیوں انجینئر رشید کاسشما سوراج سے سوال

سرےنگر/ہندوستانی سرکار کی طرف سے پانچ پاکستانی بچوں کو علاج کیلئے ویزا دئے جانے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اے آئی پی سربراہ ابور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید نے نئی دلی پر زور دیا ہے کہ وہ علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر کچھ اقدامات اٹھائے ۔ اپنے ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا ©©”پانچ چھوٹے بچوں کو علاج کیلئے ویزا دینا اگر چہ قابل تحسین قدم ہے لیکن یہ قدم بذات خود بہت ہی چھوٹا ہے اور جن حالات میں بر صغیر کے لوگ گذر رہے ہیں ایسے میں اس قدم کی تب تک کوئی اہمیت نہیں جب تک نہ واقعی نئی دلی اور اسلام آباد اپنے اپنے ممالک کے لوگوں کے احساسات اور ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کرےں۔ ششما سوراج سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر کرناہ، کیرن، نوگام، اوڑی، مژھل، راجوری، پونچھ اور دیگر سرحدی علاقوں کے اُن ہزاروں خاندانوں کو کیوں خونی لیکر کے آر پار ملنے نہیں دیا جاتا جو 1990 یا اس سے پہلے کے حالات کا شکار ہو کر منقسم ہو کر رہ گئے ۔ یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کے یہ کشمیری خاندان جو کہ صرف چند سو فٹ کی دوری پر ایک دوسرے سے دور ہیں کو خوشی اور غم کے مواقعوں پر سینکڑوں میل مسافت طے کرکے ایک دوسرے کے پاس آنا پڑتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں خاندان بھی ہیں کہ جنہیں کسی نہ کسی بہانے ریاست کے باہر خاص طور سے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے رشتہ داروں اور لخت جگروں سے ملنے کیلئے پاسپورٹ فراہم نہیں کیا جاتا“۔ انجینئر رشید نے کہا کہ کئی ایسے نوجوانوںکی جو 1990ءکے اوائل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھاگ گئے تھے وہاں حادثاتی یا طبعی موت واقع ہوئی لیکن ان کے والدین یا بہن بھائیوں کو اپنے لخت جگروں کی قبروں کا دیدار کرنے کیلئے بھی پاسپورٹ نہیں دیا گیا ۔ ساتھ ہی ان کشمیری مہاجرین میں سے اکثر نے آزاد کشمیر میں اپنے گھر بسائے تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے بچے اپنے خاندانوں کی سرپرستی سے محروم ہو گئے ۔ انجینئر رشید نے ہندوستانی اور پاکستانی سرکاروں پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کے مصائب کو انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں اور صرف چند پاکستانی بچوں کو ویزا دینے پر ششما سوراج کو اچھلنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ انجینئر رشید نے مطالبہ کیا کہ علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر کشمیری مہاجرین کی مشکلات کا اگر نئی دلی اور اسلام آباد کوئی مداوا کرتی ہےں تو یہ قابل تعریف بات ہوگی۔ انجینئر رشید نے الزام لگایا کہ سرحدی علاقوں کے منقسم خاندانوں کی قسمت میں آج تک دوطرفہ گولہ باری کے علاوہ کوئی اچھی چیز نہیں آئی ہے ۔ انجینئر رشید نے سشما سوراج سے سوال کیا کہ پانچ پاکستانی بچوں کو ویزا دینے سے پہلے وہ یہ بتا دیں کہ صورہ کے عمر قیوم نامی طالب علم کو تھانے کے اندر طبی امداد کیوں نہیں دی گئی اور ان کی موت کیلئے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر تک درج کیوں نہیں کی گئی ۔