فاروق کا غصہ ‘ اوباہامہ کی چٹکی دہلی …..بادشاہ ننگا ہے

ظفر اقبال منہاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باکس
الحاق صرف تین باتوں پر ہوا تھا یعنی رسل و رسائل، کرنسی اور خارجہ امور، یہ کہے جانے پر کہ دفعہ 370 کو ہٹا کر ریاست کے وفاق کے ساتھ مکمل ادغام میں کیا دقّت ہے،فاروق عبداللہ نے شدید ردعمل کا امظاہرہ کیا اور پوچھا کیا آپ ہمیں مسل دینا چاہتے ہو، ان کا کہنا تھا کہ بہت ہو گیا، مہربانی کرکے ہمارے زخموں کو اور مت کریدو، میں نے نہیں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں رائے شماری کا وعدہ کیا تھا،وہ دن اور آج کا دن دونوں ملکوں نے جب بھی بات چلی کسی نہ کسی بہانے اس عمل کو سبو تاڑ کیا ہے۔یوں بھی ہم نے سیکولر بھارت کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا، اب دیکھو ملک میں کیا ہورہا ہے اور مسلمانوں کو کس طرح مشق ستم بنایا جا رہا ہے۔ کہاں ہے وہ سیکولر ہندوستان ،گاندھی کا دیس۔یہاں تو اب گاندھی کے قاتل گو ڈسےکےنام کا سکہ چلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ آج کل بے حد غصے میں ہیں اور محاورے کی زبان میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے ایک بیان دیا تھا جو کہ ماضی میں کئی بار دہرائے گئے ان کے موقف کی باز گشت تھا،تاہم اب کی بار داو اس اعتبار سے الٹا پڑا کہ ان کے اس بیان کو لےکر ان کی شدید نکتہ چینی ہی نہیں ہوئی بلکہ بعض لوگوں نے انہیں جیل میں ڈالنے اور ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بھی وکالت کی۔ سستی شہرت کی تاک میں بیٹھے ایک خود ساختہ قوم پرست جنونی نے تو فاروق عبداللہ کی زبان کاٹنے پر پچیس لاکھ کے انعام کا بھی اعلان کردیا۔ایرے غیرے نتھو خیرے کی اس دوڑ میں ارون جیٹلے اور روی شنکر پرشاد جیسے کچھ اہم چہرے بھی شامل ہوگئے ،لیکن فاروق عبداللہ ابھی تک بظاہر ٹس سے مس ہوتے نظر نہیں آتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کا رویہ مزید سخت ہوگیا ہے. آج کل وہ جہاں بھی جاتےہیں اور میڈیا والوں کو جب بھی موقع ملتا ہے، ان سے مذکورہ بیان اور اس سے جڑے ہوئے کئی اشتعال انگیز سوال پوچھے جاتے ہیں اور وضاحتیں مانگی جاتی ہیں تاہم یہ بات این سی کے صدر کے حق میں جاتی ہے کہ وہ سوال پوچھنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتے اور انہیں ان کی ضرورت کا اچھا خاصا مرچ مصالحہ فراہم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے یوں تو حالیہ دنوں میں کئی بار بیان بازی کی ہے تاہم ان کے حالیہ ایک دو انٹرویو اس اعتبار سے خاصے کی چیز تھے کہ انہوں نے ان میں براہ راست بعض جماعتوں اور شخصیات کو اپنا ہدف بنایا اور یہ بات بطور خاص نوٹ کی گئی کہ اب کی بار اسلام آباد کے مقابلے میں دہلی پر داغے گے ان کے گولوں اور میزائلوں کا وزن زیادہ اور چوٹ گہری تھی۔ایچ ڈبلیو نیوز کے پروگرام “سچ بولا جائے” میں سومیت نئیر کے چبھتے سوالوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے ریاست خاص کر کشمیری مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اور ان کی تباہی و بربادی کےلئے مرکز کو براہ راست طور ذمہ دار ٹھہرایا اور دعوی کیا کہ وادی میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ دہلی کی بد دیانتی اور بد نیتی پر مبنی پالیسیوں اور قدم قدم پر کئے گے وشواس گھات کا نتیجہ ہے، جس کی سزا ریاست براہ راست طور اور پورا ملک بلواسطہ طور بھگت رہا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اب بھی اپنے اس موقف پر اڑے ہوئے ہیں کہ کنٹرول لائین کے اس پار پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور کیا یہ اس سٹینڈ کے منافی نہیں جو حکومت ہندوستان شروع سے ہی قومی اور بین الاقوامی سطع پر اختیار کرتی چلی آرہئی ہے’ جس کی توثیق بھارتی پارلیمان نے با اتفاق رائے کی ہوئی ہے’ فاروق عبداللہ نے جواب دیا کہ “مجھے اس سے کوئی غرض یا واسطہ نہیں کہ کون کیا کہتا اور سمجھتا ہے’البتہ میں وہ کہہ رہا ہوں جو زمینی سچائی اور ناقابل تردید حقیقت ہے اور وہ لوگ جنہیں اسے قبول کرنے میں تامل ہے’ ان پر لازم ہے کہ وہ شیش محلوں میں بیٹھ کر بھاشن جھاڑنے اور کھوکھلی نعرے بازی کے بجائے سرحدوں کا رخ کریں اور پاکستان کے قبضے والے حصے کو واپس لا کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیں اور مجھے غلط ثابت کریں۔سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے 1965 میں اوڑی اور پونچھ کے درمیان حاجی پیر کا انتہائی حساس اور دفاعی اہمیت کا علاقہ فتع کرنے کے بعد تاشقند میں طشتری میں سجاکر پاکستان کو تھما دیا اور ایسا ہی انہوں نے چھم جوڑیاں میں جیتے گے علاقے کے سلسلے میں بھی کیا-اب یہ لوگ کس منھ سے بڑے بڑے دعوی کرتے ہیں اور شیخیاں بگھارتے ہیں۔میں پوچھتا ہوں جب 1947 میں قبائلی حملہ آور تیزی کے ساتھ بھاگ رہئے تھے اور یہ بات واضع تھی کہ پوری ریاست پر ہماری فوجیں قابض ہو جائیں گی تو اس فیصلہ کن گھڑی میں جنگ بندی کیوں قبول کی گئی-کیا میں نے تب ایسا کرنے کے لئے کہا تھا-اس کے بعد تین جنگیں ہوئیں’کیا ہوا۔جب تب کچھ نہ نکلا تو اب جب دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں تو سرحدیں کیسے تبدیل ہوں گی اور نتیجہ اس کے سوا کیا ہوگا کہ ہم مفت میں مارے جائیں گے”۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اب جب کہ مرکز میں ایک نئی سرکار پاور میں ہے اور اس کا اپنا الگ ایجنڈا ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا ،انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ فاروق عبداللہ نے ان کو کون سا روکا ہوا ہے اور ساتھ ہی واجپائی کے “اس پار ہم اور اس پار تم” والے مبینہ بیان کا حوالہ دیا-پاکستان کی طرف سے کشمیر میں مداخلت اور گن کلچر کو فروغ دینے سے متعلق سوال پر فاروق عبداللہ نے بلوچستان کے اندر بھارتی مداخلت کے تعلق سے اسلام آباد کے الزام کا حوالہ دیا اور کہا کہ جب تک بات چیت کا دروازہ بند رہے گا، مداخلت اور چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ بھی دونوں طرف جاری رہے گا۔باقی سینٹر کا یہ سٹینڈ قطعی غیر منطقی اور حقیقت سے دور ہےکہ آخری گولی ختم اور آخری بندوق خاموش ہوگی،تب ہم بات کریں گے، اس لئے کہ یہ کبھی ہوگا نہیں اور لوگ بلا وجہ اور مفت میں مارے جاتے رہیں گے۔اس لئے ہم چاہتے کہ یہ پاگل پن کسی طرح بند ہو اور کشمیری عوام کو عذاب و عتاب کی صورت حال سے نجات ملے۔ ہمارا سب کچھ لٹ چکا ہے، پانی،بجلی،ٹورازم سب کچھ، ہمارے اپنے پانی پر ہماری دسترس ہی نہیں۔ہمارے ساتھ قدم قدم پر اور بار بار وشواس گھات ہوا ہے۔فاروق عبداللہ کا کہنا تھا میں اور میری جماعت آزادی نہیں اٹانومی مانگتے ہیں اور یہ ہم پاکستان یہ چین سے نہیں بلکہ بھارت سے مانگتے ہیں اور وہ مانگتے ہیں جو چھل کپٹ اور فریب کے ذریعے ہم سے چھینا گیا۔
الحاق صرف تین باتوں پر ہوا تھا یعنی رسل و رسائل، کرنسی اور خارجہ امور، یہ کہے جانے پر کہ دفعہ 370 کو ہٹا کر ریاست کے وفاق کے ساتھ مکمل ادغام میں کیا دقّت ہے،فاروق عبداللہ نے شدید ردعمل کا امظاہرہ کیا اور پوچھا کیا آپ ہمیں مسل دینا چاہتے ہو، ان کا کہنا تھا کہ بہت ہو گیا، مہربانی کرکے ہمارے زخموں کو اور مت کریدو، میں نے نہیں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں رائے شماری کا وعدہ کیا تھا،وہ دن اور آج کا دن دونوں ملکوں نے جب بھی بات چلی کسی نہ کسی بہانے اس عمل کو سبو تاڑ کیا ہے۔یوں بھی ہم نے سیکولر بھارت کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا، اب دیکھو ملک میں کیا ہورہا ہے اور مسلمانوں کو کس طرح مشق ستم بنایا جا رہا ہے۔ کہاں ہے وہ سیکولر ہندوستان ،گاندھی کا دیس۔یہاں تو اب گاندھی کے قاتل گو ڈسےکےنام کا سکہ چلتا ہے۔

فاروق عبداللہ نے پار والے کشمیر کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو چیلنج کیا کہ وہ پہلے لال چوک میں جھنڈا لہرا کر تو دکھائیں،فاروق کے مطابق دیش بھگتی کا دم بھرنے والے یہ کاغذی شیر اسی تھیلے کے چٹے بٹّے ہیں،جنہوں نے جیش محمد کے چیف اظہر مسعود کو ان کی شدید مخالفت اور مفاہمت کے باوجود خاص مہمان کی طرح جہاز میں بٹھا کر قندھار پہنچایا تھا،تب یہ سورما دو سو لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہ لے سکے اور ملک کی عزت و وقار اور اتھارٹی کے ساتھ کھلواڑ کیا،اب یہ بڑی بڑی بڑھکیں مارتے ہیں اور نفرت اور فرقہ پرستی کی گندی سیاست پر اپنی روٹیاں سینکتے پھرتے ہیں۔انہوں نے مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر شائد بے موقع و محل نہ ہوگا کہ فاروق عبداللہ کی کبھی نہ برسنے والی “گھن گرج “ کے دوران بھارتی مسلمانوں کے حوالے امریکہ کے (دانشور) سابق صدر باراک اوباہامہ نے بھی مودی سرکار کی اپنے انداز میں چٹکی لی ہے۔اوباہامہ ندہلی میں ایک تقریب کے دوران انکشاف کیا کہ اپنی صدارت کے دوران جب وہ بھارت آئے ہوئے تھے تو انہوں نے نریندر مودی کو نجی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان بھارت کا قیمتی اور بیش بہا اثاثہ ہیں اور ان کی سرکار کو مسلمانوں کی دیکھ ریکھ اور تحفظ کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ باراک اوبامہ کا معنی خیز بیان محض ہوائی غبارہ یا بے موقع کی راگنی ہر گز نہیں ہے۔ گذشتہ تین چار برسوں سے ملک کے اندر اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو کبھی اس بہانے، کبھی اس بہانے جس طرح تختہ مشق بنایا جارہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ میں جس طرح اس کا نوٹس لیا گیا ہے ،مذکورہ بیان اسی کا شاخسانہ ہے اور اس بات کا ٹھوس اور واضع ثبوت ہے کہ آپ زر خرید اور بد دیانت میڈیا کی مدد اور تائید سے دودھ سے دھلے ہونے کا جتنا بھی ڈھول پیٹیں، عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونک نہیں سکتے۔ باقی جہاں تک فاروق عبداللہ کے تیز و تند بیانات کا سوال ہے،اس بارے میں کم سے کم سطع پر یہ کہا جا سکتا کہ این سی اور اس کے موجودہ سربراہ کی سیاست اور ان کی ذات سے اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو، ریاست خاص کر وادی کے حوالے سے مرکزی لیڈرشپ کے وشواس گھات اور جمہوریت کش روئیے کے کو لےکر جو کچھ بھی انہوں نے کہا ہے، کسی بھی غیر جانبدار یا منصف مزاج شخص کےلئے اس کے بیشتر مندرجات سے اختلاف کی بہت کم گنجائش ہے۔کشمیریوں کو اس حال تک پہچانے میں دہلی کے کلیدی اور گھناونے کردار کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔اس تلخ سچائی سے عقل کے اندھوں اور انصاف کے دشمنوں کے سوا اور کسے انکار ہوسکتا ہے کہ ،
کشمیر کی موجودہ المناک صورت حال اور اس سے پیدا ہونے والی بے بسی ، بے کسی اور نا امیدی کی نفسیات کےلئے بنیادی طور پر دہلی اور صرف دہلی ذمہ دار ہے، جسنے دوست اور حلیف کے روپ میں کئے گے سبھی عہد وپیمان ایک ایک کرکے توڑ دئیے اور کشمیری لیڈروں کی بے بسی کا بے رحمانہ استعمال اور ان کی بشری و نفسانی کمزوریوں کا سفاکانہ استعصال کرکے انہیں عوام کی نظروں میں گرا دیا اور ان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا کر پوری نئی نسل کو فریسٹریشن،ڈپریشن اور نا امیدی کے دلدل میں پھینک دیا اور موقعے کی تلاش میں بیٹھے کھلاڑی کو کشمیریوں کی لاشوں پر اپنا “بدلے کی نفسیات کا کھیل “کھیلنے کا موقع فراہم کردیا۔

اور یوں ہزاروں سال پر محیط تاریخی، تہذیبی اور تمدنی ورثے کی حامل ایک قوم کو آگے خندق، پیچھے کھائی کی افسوس ناک صورت حال سے دو چار کر دیا۔ اور اب عالم یہ ہے کہ اس کے اپنے خانہ ذاد (Indigenous ) بیانئے کے باوجود دونوں اطراف سے اس پر بالا دست طاقتوں کی طرف سے من پسند اور بناسپتی بیانئے ٹھونسے جارہے ہیں اور اس کےلئے انصاف،اصول اور مسلمہ اخلاقی اقدار کے سوا گاجر اور ڈنڈے سے آراستہ ہر حربہ اور ہر داو پیچ بروئے کار لایا جارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ دونوں ہی غالب قوتیں اپنے اپنے طور پر اور اپنے اپنے دائرہ کار میں ہتھوڑا ہاتھ میں اٹھا کر Feel Good کا چورن لوگوں کے گلے میں اتارتے ہیں اور جب وہ ہضم نہیں کر پاتے تو اس چورن میں گولی،گالی اور دباو و دھونس کے سارے عناصر شامل کر دیئے جاتے ہیں اور یہ باور کرنے یا کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سرکار اور لیڈرشپ کی شکل میں لوک کہانی کا یہ مادر زاد ننگا بادشاہ جمہوریت،انسانیت اور انصاف کے کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہے، لوک کہانی کے بادشاہ کے ننگے پن کی پول ایک معصوم بچے نے کھول دی تھی لیکن اس کو کیا کیجئے کہ
وقت بدل چکا ہے اور اب “بادشاہ ننگا ہے “ کی آوازیں ہر گلی اور ہر کوچے سے آٹھ رہئی ہیں اور جن پہ تکیہ تھاوہ پتے بھی ہوا دے رہئے ہیں،جس کا علاج دیکھنے والوں کی بینائی پر انگلی آاٹھانے کے بجائے صرف اور صرف اس میں ہے کہ بادشاہ سلامت اپنا ننگا پن دور کرے، ورنہ “بادشاہ ننگا ہے “کا آہنگ اس پار اور اس پار دونوں ہی جگہ بلند سے بلند ہوتا جائے گا۔یہ نہ دعوی ہے نہ ہی دھمکی بلکہ تاریخ کی منطق ہے۔
اور آخر میں سٹوری کی دم ——-!
جناب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ دہلی کا بادشاہ کشمیر میں ننگا ہے۔ بجا فرمایا آپ نے۔آپ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ دہلی کا یہ بادشاہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی ننگا تھا اور اس نے اپنے ننگے پن کا ننگا مظاہرہ ماضی میں فاروق عبداللہ ہی نہیں ان کے والد مرحوم کے سامنے بھی بار بار کیا ہے۔ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ ننگے بادشاہ کی ستر پوشی اور اس کے آدرش وادی لباس کی گواہی کی قسمیں کھانے والے کون تھے۔ اور 1975 اور 1996 میںبادشاہ کی خوش لباسی اور خوش پوشی کا اعلان کس نے کیا تھا۔؟اگر یہ تھرڈ کلاس راج نیتی نہیں بلکہ “انتر آتما “ کی آواز ہے تو ڈاکٹر صاحب ! واشگاف لفظوں میں کم ازکم مذکورہ دو غلطیوں کا اعتراف کرنے اور ان کے لئے غیر مشروط معافی مانگنے میں کیا حرج ہے؟ آخر جانگیا پہننا آپ کو بھی تو بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تو ادھر ادھر
کی نہ بات کر
یہ بتا
کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مذاکرات کا مطلب بابری مسجد پر قبضہ ہے!
رشےد انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باکس
اس قسم کا بےان جس میں ظاہر ہو کہ سپرےم کورٹ کے فےصلے کی ہم کو پرواہ نہےں ہے ہم وہی کرےں گے جو ہماری مرضی ہوگی۔ آر اےس اےس کے سربراہ موہن بھاگوت کا وہ بےان جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو سپرےم کورٹ کے اختےارات اور احکام کی کوئی پرواہ نہےں ہے۔ بابری مسجد کی ملکےت کے مقدمہ کا فےصلہ (خواہ کچھ ہو) ”ہم بابری مسجد کی جگہ پر ہی رام مندر بنائےں گے“ کےا اتنے بڑے سنگھ پرےوار مےں کوئی اےسا فرد نہےں ہے جو موہن بھاگوت کو بتاسکے کہ اس قسم کی باتےں عدالتوں میں زےر دوران مقدمات کے بارے میں نہےں کی جانی چاہئے۔ مان لیں کہ ےوپی اے دورِ حکومت مےں اگر سونےا گاندھی اعلان کرتےں کہ بابری مسجد کی زمےن پر ہی بابری مسجد تعمےر کی جائے گی تو سنگھ پرےوار کا کےا رد عمل ہوتا؟مقدمات کے فےصلے ”عقےدہ“ کی بنےاد پر نہےں کئے جاتے ہےں۔ قانون تواندھا ہوتا ہے جانبدار نہےں ہوتا ہے لےکن سنگھ پرےوار کے پاس قانون کا کوئی احترام نہےں ہے۔ ان کے پاس ان کی مرضی ہی قانون ہے۔ اس لئے موہن بھاگت کو پرےوار میں شائد ہی کسی نے ان کی غلطی کی نشاندہی کی ہو۔ اس سے ےہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اصل حکمران توموہن بھاگوت ہی ہےں۔ مودی ہوں ےا کوئی اور بی جے پی کا وزےر ےا قائد سب ہی موہن بھاگوت کے تابعدار ہےں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سطور کی اشاعت کے چند دن بعد 6 دسمبر 2017ءکو بابری مسجد کو شہےد ہوئے (25) سال گذر چکے ہےں۔ 6 دسمبر صرف بابری مسجد کی شہادت کی ہی برسی نہےں ہے بلکہ ےہ ملک میں سنگھی ذہنےت کے حامل افراد کے غلبے، عدالتوں بہ شمول سپرےم کورٹ کی توہےن اور قانون کی اےسی کی تےسی کرنے کی بھی برسی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں بابری مسجد کی زمےن پر ہی بابری مسجد کی تعمےر نو کے سلسلہ میں کوئی پےش رفت تو دور رہی بابری مسجد کی بازےابی کی امےدےں روز بروز کم ہوتی جارہی ہےں گوکہ بعض افراد (مثلاًاومابھارتی، پروےن توگاڑےا اور سبرامنےم سوامی وغےرہ) بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے دعوے کرتے رہتے تھے جن کی کوئی خاص اہمےت نہ تھی اور نہ ہوگی لےکن بابری مسجد کی زمےن کی ملکےت کے بارے میں مقدمہ سپرےم کورٹ میں زےر سماعت ہے۔ کسی بھی زےر سماعت مقدمہ کے فےصلے کے بارے میں کسی رائے کا اظہار بھی اےک طرح سے توہے عدالت ہے۔ کلےان سنگھ نے 1992ءمےں مسجد شہےد کرکے توہےن عدالت کی تھی کےا اب موہن بھاگوت کرنے والے ہےں؟ راقم الحروف جو 1994ءسے ہر سال پابندی سے بابری مسجد پر مضامےن لکھتا رہا ہے توہےن عدالت کی اےسی مثال نہےں دےکھی۔
اس قسم کا بےان جس میں ظاہر ہو کہ سپرےم کورٹ کے فےصلے کی ہم کو پرواہ نہےں ہے ہم وہی کرےں گے جو ہماری مرضی ہوگی۔ آر اےس اےس کے سربراہ موہن بھاگوت کا وہ بےان جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو سپرےم کورٹ کے اختےارات اور احکام کی کوئی پرواہ نہےں ہے۔ بابری مسجد کی ملکےت کے مقدمہ کا فےصلہ (خواہ کچھ ہو) ”ہم بابری مسجد کی جگہ پر ہی رام مندر بنائےں گے“ کےا اتنے بڑے سنگھ پرےوار مےں کوئی اےسا فرد نہےں ہے جو موہن بھاگوت کو بتاسکے کہ اس قسم کی باتےں عدالتوں میں زےر دوران مقدمات کے بارے میں نہےں کی جانی چاہئے۔ مان لیں کہ ےوپی اے دورِ حکومت مےں اگر سونےا گاندھی اعلان کرتےں کہ بابری مسجد کی زمےن پر ہی بابری مسجد تعمےر کی جائے گی تو سنگھ پرےوار کا کےا رد عمل ہوتا؟مقدمات کے فےصلے ”عقےدہ“ کی بنےاد پر نہےں کئے جاتے ہےں۔ قانون تواندھا ہوتا ہے جانبدار نہےں ہوتا ہے لےکن سنگھ پرےوار کے پاس قانون کا کوئی احترام نہےں ہے۔ ان کے پاس ان کی مرضی ہی قانون ہے۔ اس لئے موہن بھاگت کو پرےوار میں شائد ہی کسی نے ان کی غلطی کی نشاندہی کی ہو۔ اس سے ےہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اصل حکمران توموہن بھاگوت ہی ہےں۔ مودی ہوں ےا کوئی اور بی جے پی کا وزےر ےا قائد سب ہی موہن بھاگوت کے تابعدار ہےں۔
سنگھ پرےوار کا اولےن مقصد اقتدار کا حصول ےا اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا ہے اس مقصد کے لئے پرےوار کچھ بھی کرسکتا ہے! اور کسی بھی حدتک جاسکتا ہے کوئی بھی کسی بھی قسم کا بےان دے سکتا ہے۔ اپنے بےان میں کچھ بھی کہہ سکت اہے۔ اس کا ثبوت موہن بھاگوت سے لے کر بی جے پی ےا وشواہندوپرےشد ےا بجرنگ دل کے معمولی درجے کے کارکن ہوں سب ہی ےہ سمجھتے ہےں کہ اظہار خےال کی مکمل آزادی ان کے حامل ہے وہ جو چاہے بول سکتے ہےں۔ کٹر ہندتوادی کےسے کےسے نسرت انگیز و اشتعال انگےز بےانات آئے دن دےتے رہتے ہےں لےکن جو مےڈےا ہندتوادےوں کے بےان کو چھپالےتا ہے۔ وہی مےڈےا اکبر الدےن اوےسی کے صرف اےک بےان بلکہ اےک بات پر جس مےں انہوں نے کہا تھا کہ ”15منٹ کےلئے پولےس ہٹاکر دےکھو لےا ہوتا ہے“؟ بی جے پی کے تمام ترجمان مثلاً سمبت پاترا اور سداھانشو تروےدی وغےرہ اور آر اےس اےس کے راکےش سنہا کئی ٹی وی چےنلوں کے مےزبان (جےسے روبےکا، انجنا، سدھےر چودھی اور روہت سردانہ وغےرہ) جب بھی موقع ملتا ہے تب اکبر اوےسی کے مندرجہ بالا بےا ن کا حوالہ دےتے ہےں گوےا اکبر الدےن اوےسی کا اےک بےان ان کو بھلائے نہےں بھول رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان کےسی ہی اور کسی بھی قسم کا اشتعال انگیزی کی نہ پرواہ کرتے ہےں اور نہ ہی ان کا رد عمل شدےد ہوتا۔ اسی طرح ےوپی کے نوجوان قائد عمران مسعود کا قصہ ہے ان کے بھی صرف اےک بےان کا متعدد بار تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔
وہ قتل بھی کرتے ہےں تو چرچا نہےں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہےں تو ہوجاتے ہےں بدنام
عدالت مسجدکے ہی حوالے سے عےن اس وقت جبکہ عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت مسلسل ہونے والی ہے جےسا کے جو شوشہ چھوڑا تھا ےعنی ”بات چےت کے ذرےعہ تنازع کا حل نکالا جائے“۔ ےہ اےک کھلا اور شرم ناک دھوکا ہے۔ بات چےت سے حل کا مطلب ےہی ہے کہ مسلمان چپکے سے مسجد تو رہی نہےں مسجد کی زمےن سے دستبردار ہوجائےں اور اےک نئی مسجد اےودھےا کے باہر بنالےں اور مندر بنانے والوں کی خوشنودی حاصل کرےں۔
ہم سالوں سے سنتے آئے ہےں کہ نام نہاد بات چےت کے ذرےعہ بابری مسجد کے تنازع کا حل نکالا جائے۔ اے جی نورانی نے اپنی کتابوں مےں سردار پٹےل اور پنڈت گووند ولبھ پنت کے درمےان ہوئی خط و کتابت شائع کی ہے۔ کئی اردو کتابوں مےں اس کاترجمہ بھی شائع ہوگےا ہے۔ 1980کی دہائی مےں ےہ مسئلہ زور شور سے اٹھاےاےا گےا تھا خاص طور پر مختصر مدت کے لئے وزےر اعظم بننے چندر شےکھر نے اس سلسلے میں کافی کوشش کی تھی۔ ممتاز عالم دین علی مےاں نے بھی اپنی اےک کتاب (غالباً ملاحظات) میں اس کا تذکرہ کےا ہے۔ مختصر ےہ کہ 1980ءکے آخری سالوں میں ہوئے مذاکرات میں بابری مسجد کی تعمےر نو کے ساتھ رام مندر کی تعمےر کا ذکر ہوا کرتا تھا لےکن اب صرف رام مندر کی تعمےر کےلئے مسجد کی زمےن سے دستبرداری کی بات ہوتی ہے ۔ جبکہ ماضی میں اس بات پر غور ہوتا تھا ”مندر اور مسجد“ کہاں اور کس طرح بنےں گے؟ اب ےہ تبدےلی آچکی ہے کہ اب صرف رام مندر کی بات ہوتی ہے اور مسجد کے بارے کے بارے مےں کوئی ذکر نہےں ہوتا ہے۔
ےہ فرض کرلےا گےا ہے کہ مسئلہ صرف رام مندر کی تعمےر کا ہے۔ اس سلسلے میں سنگھ پرےوار سازشوں پر مشتمل اپنی سےاست مےں سرگر م عمل ہے تاہم شری شری روی شنکرےہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی میں مذاکرات ناکام رہے ہےں نئی کوشش شروع کردی تھی۔ دوسری طرف شےعہ وقف بورڈ کے چےرمےن وسےم رضوی کو ےوپی کے واحد مسلم وزےر پر (وہ بھی وزےر مملکت) محسن رضانے بابری مسجد کے دعوےدار بناکر وسےم رضوی کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرواےا۔ وسےم رضوی کے بارے مےں باور کےا جاتا ہے کہ ان پر بدعنوانی ، جائےدادوں مےں دھاندلےاں، رقومات میں خرد برد کے الزامات ہےں۔ جن سے جان چھڑانے کے لئے وہ بابری مسجد کا سودا کررہے ہےں تو دوسری طرف وہ ےہ نہےں جانتے ہےں کوئی بھی وقف بورڈ وقف جائےدادوں کو نہ تحفہ مےں دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کو فروخت کرنے کا اختےار رکھتا ہے۔ ےوپی کے شےعوں کی بھاری اکثرےت اور خود آل انڈےا شےعہ پرسنل لا بورڈ وسےم رضوی کی ملت سے غداری کو مسترد کردےا ہے۔ اب وہ اور شری شری شنکر ”اکےلے پھر رہے ہےں مےر بے کارواں ہوکر“ شےعہ وقف بورڈ آل انڈےا مسلم (سنی) پرسنل لا بورڈ نے بھی شری شری شنکر اور وسےم رضوی کا ساتھ دےنے سے اکار کردےا ہے۔ آل انڈےا مسلم پرسنل لا کا ساتھ دےنے کا فےصلہ کےا ہے۔ 2013ءکا وقت اےکٹ (دفعہ) وسےم رضوی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وقف اےکٹ کی ذےلی دفعہ( سےکشن29) تحت وقف جائےدادوں (مساجد امام بارگاہوں، خانقاہوں) کا شےعہ وقف بورڈ صرف متولی ہے۔ اس کو جائےدادوں کی ملکےت پر شےعہ وقف بورڈ کا کوئی اختےار نہےں ہے۔ 1946ءمےں بھی چند شےعوں نے بابری مسجد کو شےعہ مسجد بنانے کا دعویٰ کےا تھا جس کو ضلعی عدالت نے مسترد کردےا تھا۔ تب سے ہی ےعنی 71 سالوں سے شےعہ وقف بورڈ خاموش رہا تھا اور بابری مسجد کے کسی معاملہ ےا مقدمہ مےں شےعہ وقف بورڈ کا روےہ لا تعلقی کا رہا ہے۔ وسےم رضوی کو بابری مسجد کے مقدمہ مےں فرےق اب بننے کا کوئی حق نہےں ہے۔ جن لوگوں نے ےہ دعویٰ کےا ہے اس کےلئے بھی وسےم رضوی کے پاس کوئی ثبوت ےا دلےل نہےں ہے جن لوگوں نے بھی وسےم رضوی اور شری شری روی شنکر کو اچانک سرگرم کےا ہے وہ بھی جلد ہی بے نقاب ہوجائےں گے کچھ تو ہو بھی چکے ہےں۔ ےوپی کی ےوگی حکومت کا بھی اس معاملے مےں خاصہ عمل دخل رہا ہے لےکن اےسا لگتا ہے سب ناکام ہوگئے ہےں۔
شائد خود حکومت اور سارا سنگھ پرےوار عدالت عظمیٰ مےں کامےابی سے ماےوس ہےں۔ اس لئے ناامےد ہوکر بھاجپا غےر اخلاقی حربوں پر اتر آئی ہے لےکن آل انڈےا مسلم پرسنل لا کے سخت اور بے لچک روےہ اختےار کےا ہوا ہے اور بے نتےجہ ہونے والے مذاکرات سے اجتناب کررکھا ہے۔ آل انڈےا شےعہ پرسنل لا بورڈ نے اعلان کےا ہے کہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہے۔
رام مندر کی باتےں ےوپی مےں بلدےاتی اور گجرات مےں رےاستی اسمبلی کے انتخابات میں رام مندر کے نام پر ووٹ بٹورنا بھاجپا کا اصل مقصد ہے۔ 2019ءمےں ہونے والے پارلےمانی انتخابات مےں ہر صورت فائدہ اٹھانا بھی اےک مقصد ہے۔ اس طرح سپرےم کورٹ کی کارروائےوں پر اثر ڈالا جائے غرض کہ وسےم رضوی اور موہن بھاگوت کے اےک تےر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بابری مسجد کو شہےد کرکے بی جے پی کے شدت پسند اور اور مسلم دشمنی کے قائل نہ سہی مسلمانوں سے تعصب برتنے والے ہندووں کو دشمن نہ ہی مسلمان کو نےچا دکھانے کے خواہش مندوں کی تائےد و حماےت حاصل کرنے میں کامےاب ہوگئی تھی۔ بابری مسجد کا آخری فےصلہ اب عدالت عظمیٰ کرے گی اگر سپرےم کورٹ کو بابری مسجد سے محروم کردےتی ہے تو کوئی مسلمان کچھ نہ کرسکے گا۔ مورخ جہاں ہندووں کی دھاندلےوں اور قانون شکنی کے ساتھ مسلمانوں کی غلطےوں اور مسلم قےادت کی غلطےوں کو بھی معاف نہےں کرے گا اور اگر عدالت عظمیٰ بابری مسجد مسلمانوں کے حوالے کرنے کا فےصلہ کرے تو مسلمانوں کےلئے بابری مسجد کی تعمےر آسان نہ ہوگی۔ آزادی کے بعد جواہر لال نہرو کےا اتنے کمزور اور سردار پٹےل سے اتنے خائف اور مرعوب تھے کہ ”پٹےل جو ان کے نائب اور وزےر داخلہ تھے اور اپنی ہی رےاست کے وزےر اعلیٰ کووندولبھ پنت کو حکم نہ دے سکے کہ وہ بابری مسجد مےں دسمبر 1949ءکو بٹھائی گئےں مورتےاں اٹھوالےں اور مسجد مسلمانوں کو واپس کردی جائے نےز اگر جواہر لال نہرو ڈرتے تھے تو کےا مولانا آزاد بھی سردار پٹےل اور ولبھ پنت سے اس قدر ڈرتے تھے کہ وہ بہ حےثےت کانگرےس کے اہم ترےن مسلمان لےڈر کوئی احتجاج نہ کرسکے۔ بابری مسجد کو بازےاب کرنے کی اپےل ہی کرتے! عام مسلمانوں کو بابری مسجد اور اس پر غاصبانہ قبضہ کا علم تو 1980ءکی دہائی کے آخری سالوں مےں ہوا تھا۔ سنگھ پرےوار نے بابری مسجد کے رام جنم بھومی ےا رام چندر جی کا مقام پےدائش بتاکر مسجد پر قبضہ کرنے کی مساعی شروع کی تھی۔ مرحومےن سلطان صلاح الدےن اوےسی اور شہاب الدےن کی کوششوں اور محنت سے بابری مسجد کے المےہ سے ملت اسلامےہ ہند کو واقف کرواےا۔ راجےو گاندھی نے اپنے تاناپنڈت جواہر لال نہرو سے بہت آگے بڑھ گئے۔ نہرو نے مسجد مےں تالا ڈالے جانے کو برداشت کےا تھا تو راجےو گاندھی بابری اور مسجد کو عملاً مندر بنادےا تھا اور کانگرےس کے ہی وزےر اعظم نرسمہا راﺅ نے بابری مسجد کو شہےد کرنے کی سازش کو کامےاب بنانے مےں کلےدی رول ادا کےا تھا۔ آج بابری مسجد کا فےصلہ چند ججوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ جج صاحبان کو صحےح فےصلہ صادر کرنے کےلئے ےہ وقت دعا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔